ابوبکرؓ نے دودھ کا برتن زمین پر رکھا اور دونوں ہاتھوں سے میرے دونوں کان پکڑ لئے، اور میری پیشانی سے اپنی پیشانی بار بار ٹکراتے ہوئے کہا:
’’بلال! سنو، غور سے سنو۔ تم ایک آزاد انسان ہو۔ تمہارا کوئی آقا نہیں ہے لیکن آزاد رہا کیسے جاتا ہے، یہ تمہیں سیکھنا ہو گا‘‘۔
یہ کہتے جا رہے تھے اور پیشانی سے ٹکریں مارتے جاتے تھے۔ میں ہر ٹکر پر ہاں، ہاں، ہاں کہتا جاتا تھا۔ پھر وہ یکایک ہنس پڑے اور انہوں نے میرے کان چھوڑ دئیے۔
’’دیکھو بلال! میں تمہیں یہی سکھا سکتا ہوں کہ جب کوئی تم سے مخاطب ہو تو چونک نہ پڑا کرو۔ بات کرتے وقت لوگوں کے چہروں پر نظریں رکھو اور اپنے سائے کو اپنا ہی سایہ سمجھو۔ یہ سب ضروری باتیں ہیں۔۔۔‘‘
وہ کہتے کہتے رک گئے۔ ایک بلی جس کے پیٹ میں بچے تھے، زمین پر رکھے ہوئے دودھ کے برتن کے گرد منڈلانے لگی۔ ابوبکرؓ کی ساری توجہ اُدھر ہو گئی۔ انہوں نے ایک پیالے میں دودھ نکالا اور بلی کے آگے رکھ دیا، یعنی مجھ سے پہلے اُس نئے مہمان کی تواضع ہوئی۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ بات مجھے عجیب سی لگی۔ میں ہوتا تو شاید ایک ٹھوکر مار کر بلی کو بھگا دیتا لیکن نہیں، ابھی مجھے بہت کچھ سیکھنا تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم مکے کی طرف دس ہزار کی فوج کے ساتھ پیش قدمی کر رہے تھے تو ایک جگہ ہمارے راستے میں ایک کتیا نے بچے دے رکھے تھے۔ حضورِ اکرمﷺ نے جب یہ دیکھا تو فوج کو راستہ بدلنے کا حکم دے دیا اور ہم اُس بچوں والی کتیا سے سو گز دور نیا راستہ بنا کر گزرے۔ سارے کے سارے دس ہزار۔ محض اس لئے کہ بچوں والی کتیا پریشان نہ ہو۔ محمدﷺ نبیوں میں پہلے نبی تھے جنہوں نے جانوروں پر رحم کرنے کی تاکید کی۔ ایک بار انہوں نے فرمایا تھا کہ بندہ ایک بلی پر ظلم کر کے جہنم میں جا سکتا ہے اور ایک بے زبان کو پانی پلا کر انعام پا سکتا ہے۔
لیکن اس وقت یہ ساری باتیں میرے لئے نئی تھیں۔ میں سوچتا تھا بلی کو دودھ دیا جا رہا ہے اور مجھے نہیں۔ مجھے اُس کی شکم سیری کا انتظار کرنا ہے۔ میں انہی خیالات میں گم تھا کہ بلی کے پاس زمین پر بیٹھے ہوئے اُس عظیم اور حلیم النفس انسان نے اپنا سلسلہء کلام دوبارہ شروع کیا، وہیں سے جہاں سے ٹوٹا تھا:
’’زیادہ ضروری نکتہ یہ ہے بلال کہ غلام کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور مستقبل کا ہونا بہت اہم ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ذرا پیچے ہٹ کر بیٹھ گئے تاکہ ذرا فاصلے سے بلی کو دودھ پیتے دیکھیں۔ مجھے ابھی یہ سیکھنا تھا کہ جنہیں اللہ سے پیار ہوتا ہے اُن کے لئے ہر جاندار چیز میں مدرسے کھلے ہوتے ہیں، جانوروں میں، پھولوں میں، پھلوں میں۔ ابوبکرؓ کے لئے رو دبارِ حیات کی ہر لہر، گلشنِ زندگی کی ہر لرزش، فرش و عرش کے درمیان تخلیقِ ایزدی کا ادنیٰ سے ادنیٰ مظہر ایک درس تھا۔
’’بلال! اگر میں تمہیں ایک قلم بنا دوں تو تم لکھنا سیکھنے کی کوشش کرو گے؟‘‘
یہ سوال ایسے پوچھا گیا جیسے بے ارادہ ہو۔ جیسے میرے لئے اس کا سننا بھی ضروری نہیں تھا، حالانکہ یہی نادانستہ سوال میرے لئے غلامی سے قطعی نجات کا پیش خیمہ بنا۔ غلامی سے اصل رہائی میں ے ابوبکرؓ کی تربیت سے پائی۔ اُن کی اُس رقم سے نہیں جس سے اُن نے مجھے خرید کر آزاد کیا تھا، گویا ابوبکرؓ کا حقیقی احسان وہ تھا جو انہوں نے مجھے دیا، وہ نہیں جو انہوں نے میرے لئے دیا۔
ابوبکرؓ کی رہبری اور نگرانی میں، میں لکھنا سیکھ گیا۔ میں سیاہی بنانے کے لئے نیل کے پتے لاتا تھا۔ مغرب سے فجر تک انہیں پانی میں بھگوئے کھتا۔ پھر صبح انہیں کوٹتا اور کوٹ کر سیاہی بنا لیتا۔ میں کھال پر لکھتا تھا۔ درختں کی چھال پر لکھتا تھا۔ بھیڑ کے کندھے کی سوکھی ہڈی پر، گیلی زمین پر، راکھ پر، پتھروں پر، غرض ہر اُس چیز پر جس پر لکھا جا سکتا تھا۔ چلتے پھرتے میں ہوا میں بھی انگلیوں سے کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔
ہر روز ابوبکرؓ مجھے تھوہر کا ایک نیا قلم تراش کر کے دیتے تھے۔ اب اُن کی صبح کا معمول یوں ہو گیا تھا۔ پہلے نماز، پھر قلم، پھر بکریوں کا دودھ۔
میں لکھنے بیٹھتا تو اکثر وہ میرے پیچھے آ کھڑے ہوتے۔ مجھے لکھتے دیکھتے رہتے اور میری اصلاح کرتے۔ ایک دن انہوں نے مجھے عنترہ کی نظمیں لا کر دیں جنہیں میں نے پہلے ایک ایک لفظ اور پھر ایک ایک مصرع کر کے زور زور سے پڑھنا سیکھا۔ عترہ صحراؤں کا شہزادہ تھا۔ اس کے عظیم کارنامے، یکہ و تنہا کئی کئی سے لڑ کر دادِ شجاعت وصول کرنے کی داستانیں، اُس کی نیکیوں کے قصے، مہمان نوازیوں کی کہانیاں، عبلہ سے محبت کے افسانے اور عبلہ کے عشق میں ڈھلے ہوئے اس کے رومانی اشعار زبان زدِخلائق تھے۔ عنترہ اپنے عہد کا ہیرو تھا۔ اُس کا کوئی ثانی نہیں تھا، نہ شمشیرزنی میں نہ شاعری میں۔ مجھے اُس کا ہر مصرع مبہوت کر دیتا تھا۔ یہ اُس کی نظم کی عظمت کا تقاضا تھا مگر میرا اُن سے ایک تعلق یہ بھی تھا کہ عنترہ بھی میری طرح حبشہ کی ایک غلام خاتون کا بیٹا تھا۔
ایک دن ابوبکرؓ باہر سے آئے تو بہت خوش تھے۔ میں اپنے لئے سیاہی بنا رہا تھا۔ مجھے سیاہی بناتے دیکھ کر اور بھی خوش ہوئے۔ انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر میرے سیاہی سے داغدار ہاتھ پکڑ کر چوم لئے:
’’تمہیں پتہ ہے آج رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا؟‘‘
ابوبکرؓ میرا ہاتھ پکڑے پکڑے مجھے ایک گدّے کے پاس لے گئے۔ بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی خود بھی بیٹھ گئے۔ جو خبر وہ لے کر آئے تھے اُس کے لئے اتنا اہتمام ضروری تھا۔ جب ہم بیٹھ گئے تو انہوں نے کہا:
’’طالب علم کی سیاہی، شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ رسولِ کریمﷺ کے الفاظ ہیں۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام کے بعد اپوزیشن کی ایک اور بڑی پارٹی ن لیگ اورپی پی کے رویے پربرہم
میں اٹھا اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ سیاہی کے برتن میں ڈبو دئیے، پھر ہاتھ باہر کالے اور بہت دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔ سیاہی پر سیاہی!(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تبصرے کیجئے