شیراز بڑا تاریخی شہر ہے علم و ادب کے اعتبار سے بھی اسے ایک بلند مقام حاصل ہے۔شيخ سعدی اور حافظ نے اسی سرزمین میں علم و دانش کے چراغ جلائے تھے..امیر تیمور گورگاں بلا شبہ ایک عظیم فاتح گزرا ہے……اس کی ساری زندگی میدان جنگ میں فتوحات حاصل کرتے ہوئے گزری ہے….وہ بیک وقت نہات سفاک اور ظالم اور نہایت رحم دل بھی تھا…..بہت زیادہ دیندار نہ سہی لیکن نماز کا بڑی سختی سے پابند تھا …..اس کے لشکر کے ساتھ کئی گاڑیوں پر کئی ٹکڑوں پر مشتمل مسجد بھی ہوا کرتی تھی ……اور ایک گاڑی اتنی بڑی ہوتی تھی کہ اسے بیک وقت اٹھارہ بیل مل کر کھینچا کرتے تھے…..جہاں کہیں بھی لشکر پڑاؤ کرتا وہاں مسجد کے ٹکڑوں کو اتار کر جوڑا جاتا اور اس مسجد میں کئی سو آدمی نماز پڑھ سکتے تھے….
کہتے ہیں کہ جب تیمور اصفہان پہنچا تو شہروالوں نے خراج دے کر شہر تیمور کے حوالے کر دیا …..تیمور نے تین ہزار تاتاری سپاہیوں کو شہر میں مختلف مقامات پر تعینات کر دیا…….لیکن پھر چند سر پھرے ایرانیوں نے اپنی تقاریر کے ذریعے لوگوں میں جذبہ شہادت بیدار کیا اور کہا کہ تاتاری غاصب اور بے دین ہیں لہٰذا انہیں مار بھگائو…..ان تقاریر کے جواب میں جوان خون نے جوش مارا اور جو ہتھیار بھی میسر ہوسکے ان سے لیس ہو کر جو تاتاری شہر میں تھے ان کا قتل عام شروع کردیا……تین ہزار تاتاریوں میں صرف چند سپاہی جان بچا کر لشکر میں واپس جا سکے……تیمور کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اس نے شہر پر حملے کا حکم دیا اور کہا کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ سب کو قتل کر دیا جائے…….اور کہا کہ ہر سپاہی ایک آدمی کا سر لے کر آئے……ستر ہزار کا لشکر تھا اور جب قتل عام کے بعد سروں کی گنتی ہوئی تو ستر ہزار سےکہیں زیادہ سر تھے اس طرح تیمور نے اپنے تین ہزار سپاہیوں کا بدلہ پورے اصفہان سے لیا…..
اس وقعہ سے تیمور کی دہشت پورے ایرانمیں پھیل گئی…… اس کے بعد تیمور نے شیراز کا رخ کیا..جس وقت تیمور شیراز پہنچا حافظ شیرازی شہرمیں موجود تھے. ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہوئی تھی اور ان کے اشعار زبان زدِ عام تھے….تیمور کو شعرو شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن اس نے حافظ کا کلام لوگوں سے سنا تھا اور ان کے بہت سے اشعار تیمور کو زبانی یاد تھے.شیراز میں قیام کے دوران تیمور کو کسی نے بتایا کہ فارسی کا عظیم شاعر شیراز میں موجود ہے…تیمور حافظ کے نام پر چونک اٹھا اور فوراً اسے دربار میں طلب کر لیا…..حکمِ حاکم کےمصداق حافظ کو تیمور کے دربار میں جانا پڑا……کہا جاتا ہے کہ حافظ بہت خوش پوش تھے اور اچھے سے اچھا لباس پہنا کرتے تھے…لیکن جب وہ دربارِتیمور میں پہنچے تو معمولی کپڑے پہن رکھے تھے اور بظاہر ایک غریب آدمی نظر آتے تھے.تیمور کو حافظ کی شاعری کس حد تک پسند تھی اس کا تو پتہ نہیں لیکن تیمور کو حافظ کے ایک شعر پر سخت اعتراض تھا…..پس جب حافظ سلام کے بعد تیمور کے سامنے مؤدب ہو کر کھڑے ہوئے تو تیمور نے تیوریوں پر بل ڈال کر پوچھا کیا یہ شعر تمہارا ہے؟
“اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا”
. ترجمہ: اگر میرا محبوب میری دلداری پر آمادہ ہوجائے تو میں اس کے رخسار پر چمکنے والے تل پر سمرقند و بخارا نچھاور کردوں حافظ کو تمیور کی زبان سے اپنا شعر سن کر سخت حیرانی ہوئی پھر سر جھکا کر ادب سے بولا “جی ہاں شہنشاہ یہ میرا ہی شعر ہے”تیمور بڑی تلخی سے بولا:”سمرقند کو ہم نے سینکڑوں قیمتی جانیں گنوا کر بزور شمشیر حاصل کیا ہے اور اب دوسرے شہروں سے نوادرات لے جا کر اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے ہیں…اور تم کہاں کے ایسے رئیس ہو جو اس عظیم شہر کو شیراز کی دو کوڑی کی چھوکری کو بخشے دےرہے ہو.?
“حافظ نے تیمور کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو انہیں خفگی کے آثار نظر آئے. وہ بہت گھبرائے اور سمجھ گئے کہ آج برے پھنسے جان بچنا مشکل ہے. پھر انہوں نے ہمت سے کام لیا اور ذرا توقف سے بولے: “اے امیر تاتار اور شاہ شاہاں! میری ان شاہ خرچیوں اور غلط بخشیوں کا ہی تو نتیجہ ہے کہ آج امیر کے دربار میں آنے کے لیے میرے پاس ڈھنگ کا کوئی لباس بھی نہیں رہا اور ایک مفلس اور فقیر کی طرح حاضر دربار ہوا ہوں.” حافظ شیرازی کی ذہانت نے ان کی جان بچا لی اور ان کے برجستہ جواب سے تیمور کا غصہ کافور ہو گیا اور وہ بہت خوش ہوا اور انہیں بہت سا انعام و اکرام دے کر دربار سے رخصت کیا حالانکہ تمام درباری حافظ شیرازی کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے…..
(ماخوذ از: امیر تیمور گورگاں)