جو کچھ ہوا کے ہاتھ میں تها کر چکی ہوا

جو کچھ ہوا کے ہاتھ میں تها کر چکی ہوا
رستے نے تیرے پاؤں کو مٹنے نہیں دیا

سب ہاتھ اٹھا کے بول اٹھے،کیا کمال ہے
میں چیختا رہا کہ یہ میں نے نہیں کیا

سارے خیال کشتیءنوح میں سوار تھے
آنسو تهمے تو جسم کنارے سے آ لگا

پھر تنگ آ گیا میں تجھے دیکھ دیکھ کر
پھر ایک اور شہر مجھے چهوڑنا پڑا

لٹکا رہا پرندہ ہوا کی صلیب پر
کٹتے ہوئے شجر کی طرف دیکھتا رہا

سب اڑ گئے پرندے مرے سر کے پیڑ سے
سینے کے جنگلوں میں کوئی حادثہ ہوا

تیرے لیے ہی جوگ لیا تھا پر اسکے بعد
تجھ کو بھی ڈال کر مرا کاسہ نہیں بهرا

تو نے یہ کیا غضب کیا ساروں کے سامنے
حالانکہ دیکھ کر تجھے میں بھی اداس تھا

عمران جی کے مر کہ مر کے جی سکے کوئی
دانے نے خاک میں سے نکلتے ہوئے کہا

عمران فیروز

موضوعات