جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا، آنکھوں سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کو صدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تو پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشان ہے تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا
ایوب رومانی