بس خواب بیچتا ہوں ، بناتا نہیں ہوں میں
لیکن یہ بات سب کو بتاتا نہیں ہوں میں
دُنیا سے مجھ کو اتنی محبت ضرور ہے
بارش میں بھیگتا ہوں ، نہاتا نہیں ہوں میں
کرتا نہیں ہوں یاد کسی کو ملال میں
ایسی ہوا میں پھول کھلاتا نہیں ہوں میں
اب تیرا کھیل ، کھیل رہا ہوں میں اپنے ساتھ
خود کو پکارتا ہوں اور آتا نہیں ہوں میں
بس روشنی سمجھ کے مجھے راکھ ہوگیا
وہ یہ سمجھ رہا تھا جلاتا نہیں ہوں میں
آساں نہیں ہیں میری اذیّت کے داؤ پیچ
مرتا ہوں ، اور ، جان سے جاتا نہیں ہوں میں
معصوم بے قراری ہے میرے خمیر میں
اُڑتی ہے میری خاک ، اُڑاتا نہیں ہوں میں
اکبر معصوم