بنی اسرائیل میں برصیصا نامی ایک راہب تھا، اس وقت بنی اسرائیل میں اس جیسا کوئی عبادت گزار نہیں تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا ہواتھا، وہ اسی میں عبادت میں مست رہتا تھا، اسے لوگوں سے کوئی غرض نہیں تھی، نہ تو وہ کسی کو ملتا تھا اور نہ ہی کسی کے پاس آتا جاتا تھا، شیطان نے اسے گمراہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔برصیصا اپنے کمرے سے باہر نکلتا ہی نہیں تھا، وہ ایسا عبادت گزار تھا کہ اپنا وقت ہرگز ضائع نہیں کرتاتھا، شیطان نےدیکھا کہ جب دن میں کچھ وقت تھکتے ہیں.
تو کبھییں تو کبھی کبھی اپنی کھڑکی سے باہر جھانک کردیکھ لیتے ہیں، ادھر کوئی آبادی بھی نہیں تھی، اس کا اکیلا صومعہ تھا، اس کے اردگرد کھیت اور باغ تھے، جب اس نے دیکھا کہ وہ دن میں ایک یا دو مرتبہ کھڑکی سے دیکھتے ہیں تو اس مردود نے انسانی شکل میں آ کر کھڑکی کے سامنے نماز کی نیت باندھ لی۔۔۔ اس نے نماز کیا پڑھنی تھی، فقط شکل بنا کر کھڑا تھا۔۔۔ اب دیکھو کہ جس کی جو لائن ہوتی ہے اس کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے مطابق (دل کش) بہروپ بناتا ہے۔چنانچہ جب اس نے کھڑکی میں سے باہر جھانکا تو ایک آدمی کو قیام کی حالت میں دیکھا، وہ بڑا حیران ہوا، جب دن کے دوسرے حصے میں اس نے دوبارہ ارادتاً باہر دیکھا تو وہ رکوع میں تھا، بڑا لمبا رکوع کیا، پھر تیسری مرتبہ سجدے کی حالت میں دیکھا،۔جاری ہے ۔کئی دن اسی طرح ہوتا رہا، آہستہ آہستہ برصیصا کے دل میں یہ بات آنے لگی کہ یہ تو کوئی بڑا ہی بزرگ انسان ہے جو دن رات اتنی عبادتیں کرتا ہے،
وہ کئی مہینوں تک اسی طرح شکل بنا کر قیام، رکوع اور سجدے کرتا رہا، یہاں تک کہ برصیصا کے دل میں یہ بات آنے لگی کہ میں اس سے پوچھوں تو صحیح کہ یہ کون ہے۔جب برصیصا کے دل میں یہ بات آنے لگی تو شیطان نے کھڑکی کے قریب مصلی بچھانا شروع کر دیا، جب مصلی کھڑکی کے قریب آ گیا اور برصیصا نے باہر جھانکا تو اس نے شیطان سے پوچھا: تم کون ہو؟وہ کہنے لگا: آپ کو مجھ سے کیا غرض ہے، میں اپنے کام میں لگا ہوا ہوں، مجھے ڈسٹرب نہ کریں، وہ سوچنے لگا کہ عجیب بات ہے کہ کسی کی کوئی بات سننا گوارا ہی نہیں کرتا، دوسرے دن برصیصا نے پھر پوچھا کہ آپ اپنا تعارف تو کروائیں، وہ کہنے لگا: مجھے اپنا کام کرنے دو۔اللہ کی شان کہ ایک دن بارش ہونے لگی، وہ بارش میں بھی نماز کی شکل بنا کر کھڑا ہوگیا، برصیصاکے دل میں بات آئی کہ جب یہ اتنا عبادت گزار ہے کہ اس نے بارش کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی،کیوں نہ میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کروں.
اور اس سے کہوں کہ میاں! اندر آ جاؤ، چنانچہ اس نے شیطان کو پیش کش کی کہ باہر بارش ہو رہی ہے، تم اندر آ جاؤ، وہ جواب میں کہنے لگا: ٹھیک ہے، مومن کی مومن کی دعوت قبول کر لینی چاہیے، لہٰذا میں آپ کی دعوت قبول کر لیتا ہوں، وہ چاہتا ہی یہی تھا، چنانچہ اس نے کمرے میں آ کر نماز کی نیت باندھ لی وہ کئی مہینوں تک اس کے کمرے میں عبادت کی شکل بناتا رہا، وہ دراصل عبادت نہیں کر رہا تھا، فقط نماز کی شکل بنا رہا تھا،لیکن دوسرا یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، اس کو نمازسے کیا غرض تھی، وہ تو اپنے مشن پر تھا۔جب کئی مہینے گزر گئے تو برصیصا نے اسے واقعی بہت بڑا بزرگ سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے دل میں اس کی عقیدت پیدا ہونا شروع ہو گئی، ا۔جاری ہے ۔تنے عرصے کے بعد شیطان برصیصا سے کہنے لگا کہ اب میرا سال پورا ہو چکا ہے
لہٰذا میں اب یہاں سے جاتا ہوں، میرا مقام کہیں اور ہے، روانہ ہوتے وقت ویسے ہی دل نرم ہو چکا تھا، لہٰذا وہ برصیصا سے کہنے لگا:اچھا میں آپ کو جاتے جاتے ایک ایسا تحفہ دے جاتا ہوں جو مجھے اپنے بڑوں سے ملا تھا، وہ تحفہ یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھی بیمارآئے تو اس پر یہ پڑھ کر دم کر دیا کرنا، وہ ٹھیک ہو جایا کرے گا، تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کوئی آیا تھا اور تحفہ دے گیاتھا، برصیصا نے کہا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، وہ کہنے لگا کہ ہمیں یہ نعمت طویل مدت کی محنت کے بعد ملی ہے، میں وہ نعمت تمہیں تحفے میں دے رہا ہوں اور تم انکار کر رہے ہو، تم تو بڑے نالائق انسان ہو،یہ سن کر برصیصا کہنے لگا: اچھاجی! مجھے بھی سکھا ہی دیں، چنانچہ شیطان نے اسے ایک دم سکھادیا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گیا کہ اچھاپھر کبھی ملیں گے۔
وہ وہاں سے سیدھا بادشاہ کے گھر گیا، بادشاہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی، شیطان نے جا کر اس بیٹی پر اثر ڈالا اور وہ مجنونہ سی بن گئی، وہ خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی تھی لیکن شیطان کے اثر سے اسے دورے پڑنا شروع ہوگئے، بادشاہ نے اس کے علاج کے لیے حکیم اور ڈاکٹر بلوا لیے،کئی دنوں تک وہ اس کا علاج کرتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔جب کئی دنوں کے علاج کے بعد کچھ افاقہ نہ ہوا تو شیطان نے بادشاہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ بڑے حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا لیا ہے، اب کسی دم والے سے ہی دم کروا کر دیکھ لو، خیال آتے ہی اس نے سوچا کہ ہاںکسی دم والے کو تلاش کرنا چاہیے، چنانچہ اس نے اپنے سرکاری ہرکارے بھیجے تاکہ وہ پتہ کرکے آئیں کہ اس وقت سب سے زیادہ نیک بندہ کون ہے، سب نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ نیک آدمی تو برصیصا ہے اور وہ تو کسی سے ملتا ہی نہیں
ہے،بادشاہ نے کہا کہ اگر وہ کسی سے نہیں ملتا تو ان کے پاس جا کر میری طرف سے درخواست کرو کہ ہم آپ کے پاس آ جاتے ہیں۔کچھ آدمی برصیصا کے پاس گئے، اس نے انہیں دیکھ کر کہا کہ آپ مجھے ڈسٹرب کرنے کیوں آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بادشاہ کی بیٹی بیمار ہے، حکیموں اور ڈاکٹروں سے بڑا علاج کروایا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، بادشاہ چاہتے ہیں کہ آپ بے شک یہاں نہ آئیں تاکہ آپ کی عبادت میں خلل نہ آئے، ہم آپ کے پاس بچی کو لے کر آ جاتے ہیں، آپ یہیں اس بچی کو دم کر دینا،ہمیں امید ہے کہ آپ کے دم کرنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گی، اس کے دل میں ایک خیال آیا کہ ہاں میں نے ایک دم سیکھا تو ہے، اس دم کو آزمانے کا یہ اچھا موقع ہے، چلو یہ تو پتہ چل جائے گا کہ وہ دم ٹھیک بھی ہے یا نہیں، چنانچہ اس نے ان لوگوں کو بادشاہ کی بیٹی کو لانے کی اجازت دے دی۔
بادشاہ اپنی بیٹی کو لے کر برصیصا کے پاس آ گیا، اس نے جیسے ہی دم کیا۔جاری ہے ۔وہ فوراً ٹھیک ہوگئی، مرض بھی شیطان نے لگایا تھا اور دم بھی اسی نے بتایاتھا لہٰذا دم کرتے ہی شیطان اس ک چھوڑ کر چلاگیا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گئی،بادشاہ کو پکا یقین ہو گیا کہ میری بیٹی اس کے دم سے ٹھیک ہوئی ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد اس نے پھر اسی طرح بچی پر حملہ کیا اور وہ اسے پھر برصیصا کے پاس لے آئے، اس نے دم کیا تو وہ پھر اسے چھوڑ کر چلا گیا، حتیٰ کہ دو چار دن کے بعد بادشاہ کو پکا یقین ہو گیا کہ میری بیٹی کا علاج اس کے دم میں ہے، اب برصیصا کی بڑی شہرت ہوئی کہ اس کے دم سے بادشاہ کی بیٹی ٹھیک ہو جاتی ہے۔
کچھ عرصے کے بعد اس بادشاہ کے ملک پر کسی نے حملہ کیا،وہ اپنے شہزادوں کے ہمراہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرنے لگا، اب بادشاہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر جنگ میں جائے تو بیٹی کو کس کے پاس چھوڑ کر جائیں، کسی نے مشورہ دیا کہ کسی وزیر کے پاس چھوڑ جائیں اور کسی نے کوئی اورمشورہ دیا، بادشاہ کہنے لگا کہ اگر اس کو دوبارہ بیماری لگ گئی تو پھر کیا بنے گا، برصیصا تو کسی کی بات بھی نہیں سنے گا، چنانچہ بادشاہ نے کہا کہ میں خود برصیصا کے پاس اپنی بیٹی کو چھوڑ جاتا ہوں۔۔۔ دیکھو شیطان کیسے جوڑ ملا رہا ہے۔۔۔بادشاہ اپنے تینوں بیٹوں اور بیٹی کو لے کر برصیصا کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا کہ ہم جنگ پر جا رہے ہیں، زندگی اور موت کا پتہ نہیں ہے، مجھے اس وقت سب سے زیادہ اعتماد تمہیں پر ہے
اور میری بیٹی کا علاج بھی تمہارے ہی پاس ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ یہ بچی تمہارے پاس ہی ٹھہر جائے، برصیصا کہنے لگا:توبہ توبہ!!! میں یہ کامکیسے کر سکتا ہوں کہ یہ اکیلی میرے پاس ٹھہرے، بادشاہ نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بس آپ اجازت دے دیں،میں اس کے رہنے کے لیے آپ کے عبادت خانے کے سامنے ایک گھر بنوا دیتا ہوں اور یہ اسی گھرمیں ٹھہرے گی، برصیصا نے یہ سن کر کہا: چلو ٹھیک ہے، جب اس نے اجازت دے دی تو بادشاہ نے اس کے عبادت خانے کے سامنے گھر بنوا دیا اور بچی کو وہاں چھوڑ کر جنگ پر روانہ ہو گئے۔ اب برصیصا کے دل میں بات آئی کہ میں اپنے لیے تو کھانا بناتا ہی ہوں، اگربچی کا کھانا میں ہی بنا دیاکروں تو اس میں کیا حرج ہے کیوں کہ وہ اکیلی ہے پتہ نہیں وہ اپنے لیے کھانا پکائے گی بھی یا نہیں،چنانچہ وہ کھانا بناتا اور آدھا خود کھا کر باقی آدھا کھانا اپنے عبادت خانے کے دروازے
سے باہر رکھ دیتا اور اپنا دروازہ کھٹکھٹا دیتا، یہ اس لڑکی کے لیے اشارہ ہوتا کہ اپنا کھانا اٹھا لو، اس طرح وہ لڑکی کھانا اٹھا کر لے جاتی اور کھا لیتی، کئی مہینوں تک یہی معمول رہا۔اس کے بعد شیطان نے اس کے دل میں یہ بات ڈالی کہ دیکھو، وہ لڑکی اکیلی رہتی ہے،۔جاری ہے ۔تم کھانا پکا کر اپنے دروازے کے باہر رکھ دیتے ہو اور لڑکی کو وہ کھانا اٹھانے کے لیے گلی میں نکلنا پڑتا ہے،اگر کبھی کسی مرد نے دیکھ لیا تو وہ اس کی عزت خراب کر دے گا، اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانا بنا کر اس کے دروازے کے اندر رکھ دیا کرو تاکہ اس کو باہر نکلنا نہ پڑے، چنانچہ برصیصا نے کھانا بنا کر اس کے دروازے کے اندر رکھنا شروع کردیا،
وہ کھانا رکھ کر کنڈی کھٹکھٹا دیتا اور وہ کھانا اٹھا لیتی، یہ سلسلہ چلتا رہا۔جب کچھ اور مہینے بھی گزر گئے تو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ تم خود تو عبادت میں لگے ہوتے ہو، یہ لڑکی اکیلی ہے،ایسا نہ ہو کہ تنہائی کی وجہ سے اور زیادہ بیمار ہو جائے، اس لیے بہتر ہے کہ اس کو کچھ نصیحت کر دیا کرو تاکہ یہ بھی عبادت گزار بن جائے اور اس کا وقت ضائع نہ ہو، یہ خیال دل میں آتے ہی اس نے کہا کہ ہاں یہ بات تو بہت اچھی ہے لیکن اس کام کی کیا ترتیب ہونی چاہیے، شیطان نے اس بات کا جواب بھی اس کے دل میںڈالا کہ اس کو کہہ دو کہ اپنے گھرکی چھت پر آ جایا کرے اور تم بھی اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ جایا کرو اور اسے وعظ و نصیحت کیاکرو،چنانچہ اس نے اسی ترتیب بے وعظ و نصیحت کرنا شروع کردی، اس کے وعظ کا اس لڑکی پر بڑا اثر ہوا، اس نے نمازیں اور وظیفے شروع کر دیے، اب شیطان نے اس کے دل میں یہ
بات ڈالی کہ دیکھ تیری نصیحت کا اس پر کتنا اثر ہوا، ایسی نصیحت تو ہر روز ہونی چاہیے، چنانچہ اس نے روزانہ نصیحت کرنا شروع کر دی۔اسی طرح کرتے کرتے جب کچھ وقت گزر گیاتو شیطان نے پھر اس کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم اپنے گھر کی چھت پر بیٹھتے ہو اور وہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھتی ہے،راستے میں گزرنے والے کیا باتیں سوچیں گے کہ یہ کون باتیں کر رہے ہیں، اس طرح تو بہت ہی غلط تاثر پیدا ہو جائے گا، اس لیے بہتر ہے کہ چھت پر بیٹھ کر اونچی آواز سے بات کرنے کے بجائے تم دروازے سے باہر کھڑے ہو کر تقریر کرو اور وہ دروازے کے اندر کھڑی ہو کر سن لے، پردہ تو ہو گا ہی صحیح، چنانچہ اب اسی ترتیب سے وعظ و نصیحت شروع ہوگئی،
کچھ عرصے تک اسی طرح معمول رہا۔اس کے بعد شیطان نے پھر برصیصا کے دل میں خیال ڈالا کہ تم باہر کھڑے رہ کر تقریر کرتے ہو،۔جاری ہے ۔دیکھنے والے کیاکہیں گے کہ پاگلوں کی طرح ایسے ہی باتیں کر رہا ہے، اس لیے اگر تقریر کرنی ہے تو چلو کواڑ کے اندر کھڑے ہو کر کر لیا کرو، وہ دور کھڑی ہو کرسن لیا کرے گی، چنانچہ اب اس نے دروازے کے اندر کھڑے ہو کر تقریر کرنا شروع کر دیا، جب اس نے اندر کھڑے ہو کر تقریر کرنا شروع کردی تو لڑکی نے اسے بتایا کہ اتنی نمازیں پڑھتی ہوں اور اتنی عبادت کرتی ہوں، یہ سن کر اسے بڑی خوشی ہوئی
کہ میری نصیحتوں کا اس پر بڑا اثر ہو رہا ہے،اب میں اکیلا ہی عبادت نہیں کر رہا ہوتا بلکہ یہ بھی عبادت کر رہی ہوتی ہے، کئی دن تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔بالآخر شیطان نے لڑکی کے دل میں برصیصا کی محبت ڈالی اور برصیصا کے دل میں لڑکی کی محبت ڈالی، چنانچہ لڑکی نے کہا کہ آپ جو کھڑے کھڑے بیان کرتے ہیں، میں آپ کے لیے چارپائی ڈال دیاکروں گی، آپ اس پر بیٹھ کر بیان کردیا کرنا اور میں دوربیٹھ کر سن لیا کروں گی، اس نے کہا: بہت اچھا، لڑکی نے دروازے کے قریب چارپائی ڈال دی،برصیصا اس پر بیٹھ کر نصیحت کرتا اور لڑکی دور بیٹھ کر باتیں سنتی رہی، اس دوران شیطان نے برصیصا کے دل میں لڑکی کے لیے شفقت و ہمدردی پیدا کر دی، کچھ دن گزرے تو شیطان نے عابد کے دل میں بات ڈالی کہ نصیحت سنانی تو لڑکی کو ہوتی ہے، دور بیٹھنے کی وجہ سے اونچا بولنا پڑتا ہے، گلی سے گزرنے والے لوگ بھی سنتے ہیں،۔جاری ہے ۔
کتنا اچھا ہو کہ یہ چارپائی ذرا آگے کرکے رکھ لیا کرے اورپست آواز میں گفتگو کر لیاکریں،چنانچہ برصیصا کی چارپائی لڑکی کی چارپائی کے قریب تر ہو گئی اوروعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رہا۔کچھ عرصہ اسی طرح گزرا تو شیطان نے لڑکی کو مزین کرکے برصیصا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا اور وہ یوں اس لڑکی کے حسن و جمال کا گرویدہ ہوتا گیا، اب شیطان نے برصیصا کے دل میں جوانی کے خیالات ڈالنا شروع کردیے، حتیٰ کہ برصیصا کا دل عبادت خانے سے اچاٹ ہو گیا اور اس کا زیادہ وقت لڑکی سے باتیں کرنے میں گزر جاتا، سال گزر چکاتھا،ایک دفعہ شہزادوں نے آ کر شہزادی کی خبر گیری کی تو شہزادی کو خوش وخرم پایا اور راہب کے گن گاتے دیکھا، شہزادوں کو لڑائی کے لیے دوبارہ سفرپر جانا تھا
اس لیے وہ مطمئن ہو کر چلے گئے، اب شہزادوںکے جانے کے بعد شیطان نے اپنی کوششیں تیز تر کردیں، چنانچہ اس نے برصیصا کے دل میں لڑکی کا عشق پیدا کر دیا اور لڑکی کے دل میں برصیصا کا عشق بھر دیا، حتیٰ کہ دونوں طرف برابرکی آگ سلگ اٹھی۔اب جس وقت عابد نصیحت کرتاتو سارا وقت اس کی نگاہیں شہزادی کے چہرے پر جمی رہتیں،شیطان لڑکی کو ناز و انداز سکھاتا اور وہ سراپا نازنین رشک قمراپنے انداز و اطوار سے برصیصا کا دل لبھاتی، حتیٰ کہ عابد نے علیحدہ چارپائی پربیٹھنے کے بجائے لڑکی کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر بیٹھنا شروع کردیا، اب اس کی نگاہیں جب شہزادی کے چہرے پر پڑی تو اس نے اسے سراپا حسن و جمال اور جاذب نظر پایا، چنانچہ اپنی شہوانی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اس شہزادی کی طرف ہاتھ بڑھایا، شہزادی نے مسکرا کر اس کی حوصلہ افزائی کی، یہاں تک کہ برصیصا زنا کا مرتکب
ہو گیا،جب دونوں کے درمیان سے حیات کی دیوار ہٹ گئی۔جاری ہے ۔اور زنا کے مرتکب ہوئے تو وہ آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے لگ گئے، اسی دوران شہزادی حاملہ ہو گئی۔اب برصیصا کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر کسی کو پتہ چل گیاتو کیا بنے گا، مگر شیطان نے اس کے دل میں خیالا ڈالا کہ کوئی فکر کی بات نہیں، جب وضع حمل ہو گا تو نومولود کو زندہ درگور کر دینا اورلڑکی کو سمجھا دینا، وہ اپنا بھی عیب چھپائے گی اور تمہارا بھی عیب چھپائے گی،اس خیال کے آتے ہی ڈر اور خوف کے تمام حجاب دور ہو گئے اور برصیصا بے خوف و خطر ہوس پرستی اور نفس پرستی میں مشغول رہا۔ایک وہ دن بھی آیا جب اس شہزادی نے بچے کو جنم دیا، جب بچے کو وہ
دودھ پلانے لگی تو شیطان نے برصیصا کے دل میں ڈالا کہ اب تو ڈیڑھ دو سال گزر گئے ہیں اور بادشاہ اور دیگر لوگ جنگ سے واپس آنے والے ہیں، شہزادی توان کو سارا ماجرا سنا دے گی، اس لیے تم اس کابیٹا کسی بہانے سے قتل کر دو تاکہ گناہ کا ثبوت نہ رہے۔چنانچہ ایک دفعہ شہزادی سوئی ہوئی تھی، اس نے بچے کو اٹھایا اور قتل کرکے گھر کے صحن میں دبا دیا، اب ماں تو ماں ہی ہوتی ہے، جب وہ اٹھی تو اس نے کہا:میرا بیٹا کدھر ہے؟ اس نے کہا:۔جاری ہے ۔مجھے تو کوئی خبرنہیں، ماں نے ادھر ادھر دیکھا تو بیٹے کا کہیں سراغ نہ ملا، چنانچہ وہ اس سے خفا ہونے لگی، جب وہ خفا ہونے لگی تو شیطان نے برصیصا کے دل میں بات ڈالی کہ دیکھو! یہ ماں ہے، اور یہ اپنے بیٹے کو ہرگز نہیں بھولے گی، پہلے تو نہ معلوم یہ بتاتی یا نہ بتاتی اب تو یہ ضرور بتا دے گی،لہٰذا اب ایک ہی علاج باقی ہے لڑکی کو بھی قتل کردو، تاکہ نہ رہے گا بانس
نہ بجے گی بانسری، جب بادشاہ آ کر پوچھے گاتو بتا دینا کہ پس وہ بیمار ہوئی تھی اور مر گئی، جیسے ہی اس کے دل میں یہ بات آئی کہنے لگا کہ بالکل ٹھیک ہے، چنانچہ اس نے لڑکی کو بھی قتل کر دیا اور لڑکے کے ساتھ ہی صحن میں دفن کر دیا، اس کے بعد وہ اپنی عبادت میں لگ گیا۔کچھ مہینوں کے بعد بادشاہ سلامت واپس آ گئے، اس نے بیٹوں کو بھیجا کہ جاؤ اپنی بہن کو لے آؤ،وہ برصیصا کے پاس آئے اور کہنے لگے: جی ہماری بہن آپ کے پاس تھی، ہم اسے لینے آئے ہیں، برصیصا ان کی بات سن کر رو پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کی بہن بہت اچھی تھی، بڑی نیک تھی اور ایسے ایسے عبادت کرتی تھی، لیکن وہ اللہ کو پیار ہو گئی تھی، یہ صحن میں اس کی قبر ہے، بھائیوں نے جب سنا تو وہ رو دھو کر واپس چلے گئے۔گھرجا کر جب وہ رات کو سوئے تو شیطان خواب میں بڑے بھائی کے پاس گیا اور اس سے پوچھنے لگا: بتاؤ تمہاری بہن کا کیا بنا؟
وہ کہنے لگے،ہم جنگ کے لیے گئے ہوئے تھے، اسے برصیصا کے پاس چھوڑ کر گئے تھے، وہ اب فوت ہو چکی ہے، شیطان کہنے لگا: وہ فوت نہیں ہوئی تھی، اس نے پوچھا کہ اگر فوت نہیں ہوئی تھی تو کیاہوا تھا؟ وہ کہنے لگا برصیصا نے خود یہ کرتوت کیا ہے۔جاری ہے ۔ور اس نے خود اسے قتل کیا ہے اورفلاں جگہ اسے دفن کیا اور بچے کو بھی اس نے اسی کے ساتھ دفن کیا تھا، اس کے بعد وہ خواب میں ہی اس کے درمیانی بھائی کے پاس گیا اور اس کو بھی یہی کچھ کہا اور پھر اس کے چھوٹے بھائی کے پاس جا کر بھی یہی کچھ کہا۔تینوں بھائی جب صبح اٹھے تو ایک نے کہا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے، دوسرے نے کہا میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے تیسرے نے
کہا کہ میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے، وہ آپس میں کہنے لگے کہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سب کو ایک جیسا خواب آیا ہے، سب سے چھوٹے بھائی نے کہا: یہ اتفاق کی بات نہیں ہے بلکہ میں جا کر تحقیق کروں گا، دوسرے نے کہا: چھوڑو بھائی یہ کون سی بات ہے جانے دو، وہ کہنے لگا: نہیں میں ضرور تفتیش کروں گا۔ چنانچہ چھوٹا بھائی غصے میں آ کر چل پڑا،اسے دیکھ کر باقی بھائی بھی اس کے ساتھ ہو لیے، انہوں نے جا کر جب زمین کو کھودا تو اس میں بہن کی ہڈیاں بھی مل گئیں اور ساتھ ہی چھوٹے سے بچے کی ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی مل گیا۔
جب ثبوت مل گیاتو انہوں نے برصیصا کو گرفتار کر لیا، اسے جب قاضی کے پاس لے جایا گیا تو اس نے قاضی کے روبرو اپنے گھناؤنے اورمکروہ فعل کا اقرار کر لیا اور قاضی نے برصیصا کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔جب برصیصا کو پھانسی کے تخت پر لایا گیااور اس کے گلے میں پھندا ڈالاگیا،اور پھر پھندا کھینچنے کا وقت آیا تو پھندہ کھینچنے سے عین دو چارلمحے پہلے شیطان اس کے پاس وہی عبادت گزار کی شکل میں آیا وہ اسے کہنے لگا: کیا مجھے پہچانتے ہو۔جاری ہے ۔کہ میں کون ہوں؟ برصیصا نے کہا: ہاں میں تمہیں پہچانتا ہوں، تم وہی عبادت گزار ہو جس نے مجھے وہ دم بتایا تھا،
شیطان نے کہا: وہ دم بھی آپ کو میں نے بتایاتھا، لڑکی کو بھی میں نے اپنا اثر ڈال کر بیمار کیا تھا، اسے قتل بھی میں نے تجھ سے کروایا تھا اوراگر اب توبچنا چاہے تو میں ہی تمہیں بچا سکتا ہوں،برصیصا نے کہا: اب تم مجھے کیسے بچا سکتے ہو؟ وہ کہنے لگا: تم میری ایک بات مان لو میں تمہارا یہ کام کر دیتا ہوں، اس نے پوچھا کہ میں آپ کی کون سی بات مانوں؟ شیطان نے کہا کہ بس یہ کہہ دو کہ خدا نہیں ہے، برصیصا کے تو حواس باختہ ہو چکے تھے، اس نے سوچا کہ چلو، میں ایک دفعہ یہ کہہ دیتاہوں، پھر پھانسی سے بچنے کے بعد دوبارہ اقرار کر لوں گا، چنانچہ اس نے کہہ دیا، خدا موجود نہیں، عین اس لمحے میں کھینچنے والے نے کھینچ دیا اور یوں اس عبادت گزار کی کفر پرموت آ گئی۔