پاکستان اور ہندوستان میں بنیادی طور تقریباًگزشتہ دو سو برس سے انگریزی زبان رائج ہے۔ انگریز فاتحین کا اپنی زبان کو برصغیر میں نافذ کرنا سمجھ میں آتا ہے کہ ایک فاتح نے اپنی زبان غلام ممالک پر مسلط کردی مگر آزادی کے بعد بھی ان ممالک کا سابق آقا کی زبان کو اختیار کیے رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے، ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے۔
انگریزی کے اس تسلط کے نقصانات پر بات کرنے سے پہلے ایک بنیادی نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ اساسی طور پر یہ بات ہی غلط ہے کہ کوئی ملک و قوم اپنی زبان چھوڑ کر زبانِ غیر اختیار کرے۔ یعنی اگر آج برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، ڈنمارک، امریکہ، چین، روس، جاپان وغیرہ اپنی زبان چھوڑ کر اردو عربی فارسی نافذ کردیں تو ان کے لیے بھی نقصانات کا باعث ہوگا، یا برطانیہ روسی زبان میں پڑھنے اور کام کرنے لگیں تو بھی برا حال ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جب تک استعمارِ قدیم کی زبان لاطینی یوروپ و مغربی دنیا پر مسلط رہی، علم و تحقیق و ایجاد و دریافت کی راہیں تقریباً مسدود ہی رہیں۔
اس تناظر میں انتہائی واضح ہوجاتا ہے کہ انگریزی کے پاکستان میں تسلط کے نقصانات ہمہ گیر اور بے انتہا ہیں۔ہمارے مذہبی عقائد، تعلیم و تربیت، اخلاق وکردار، رسوم و رواجات و عادات، طرزِ رہن سہن سب ہی پہلو انگریزی اور اس کے واسطہ سے مغربیت کی زد میں ہیں۔ مذہبی عقائد و خیالات کی ڈھیلی ہوتئ گرفت، اخلاقی رذائل کی کثرت، تحقیق و ایجاد کی قلت، مقامی تہذیب و ثقافت کے مٹتے ہوئے رنگ اس صورت حال کے عکاس ہیں۔ اس کے مضحکہ خیز پہلو بھی ہیں کہ ہم چالیس تا پچاس درجہ حرارت کے علاقوں میں مکان ایسے بناتے ہیں جیسے برف زار میں رہتے ہوں اور کوٹ پر ٹائی ایسے کستے ہیں کہ سرد ہوا سینہ پر لگنے سے نمونیا کا خدشہ ہو!اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں کہ زبانِ غیر کی کارفرمائی نے ہم سے کیا کیا چھین لیا ہے اور کیا کیا چھینے جارہی ہے، افسوس کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
اس ملک و قوم کے لیے انگریزی زبان کے کون کون سے نقصانات گنائیں جائیں، ایک طویل فرد ہے۔ چند ایک اتنے مبرہن اور واضح ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اس ملک کے اربابِ بست وکشاد سے کیسے پوشیدہ ہیں یا انہوں نے جان بوجھ کر آنکھیں موند رکھی ہیں اور بد بختی اس ملک پر مسلط کررکھی ہے۔انگریزی کے تسلط کا سب سے بڑا اور بدیہی نقصان میری نظر میں یہ ہے کہ ایک پاکستانی اپنے خواب و خیالات، احساس و جذبات، تفکر و تدبر، تحقیق و تجسس و سوالات کا فطری اظہار ہی کھو بیٹھتا ہے جو وہ فی البدیہ اور روانی و آسانی سے اپنی مادری یا قومی زبان میں کرسکتا تھا اور آہستہ آہستہ ایک غیر قوم کے خواب خیالات، احساسات، ضروریات، ایجادات و تفکرات ہی کا صید زبوں بن کر رہ جاتاہے۔ اس سے بڑھ کر اور تکلیف دہ کیا امر ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اور قوم کے اپنے خواب ہی نہ ہو۔
تعلیم کے باب میں غور کیا جائے تو انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ رکھنے سے اس قوم کے طالبانِ علم خواب و خیالات، تجسس،تحقیق و تفصح، ایجاد و دریافت کو زبانِ غیر کی دیمک چاٹ گئی۔ وہ عمر اور عرصہ جس میں اس کے ذہنوں نے سوالات اٹھانے اور ان کے جوابات کی تلاش میں عقل و شعور کے گھوڑے دوڑانے تھے، ایک بدیسی زبان کو پڑھنے اور سمجھنے میں برباد ہوگئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کو کثیر تعداد میں ڈاکٹر، انجینئر، بینکار و معیشت دان، آئی ٹی پروفیشنل فراہم کرنے والا پاکستان بہت ہی قلیل تعداد میں کم محققین، موجد، مفکر پیدا کر پاتاہے۔ فطری ذہانت، پیشہ وارانہ مہارت، محنت و جفاکشی کے باوجود نظریات، علم و تحقیق، ایجادات کے میدان میں ہم پاکستانی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
انگریزی زبان و تہذیب چونکہ برصغیر پاک و ہند کے باسیوں کے مذاہب، ثقافت، تہذیب، تعلیم، رسوم رواجات اور ضروریات سے لگًا نہیں کھاتی لہذا اس زبان نے ہمارے اخلاق و کردار پر بھی برا اثر ڈالا ہے اس لیے کہ ہر زبان مخصوص مذہبی عقائد وخیالات، نظریات، سماجی ضروریات، آب وہوا، حالات اور طرز زندگی کا پرتو اور اثرات لیے ہوتی ہے۔ زبان کے ساتھ یہ مخصوص اثرات ضرور سرایت کرتے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے اجتماعیت، خاندان، بزرگوں کا ادب واحترام، ایثار، قناعت، رواداری اور ان جیسی دیگر صفات مفقود ہوتی جارہی ہیں۔ رشتوں کی مٹھاس کے ان گنت ناموں کو انکل اور آنٹی کے بے معنی لفظوں نے نگل لیا ہے جن میں کوئی اپنائیت ہے نہ شیرینی۔
انگریزی کے نقصانات کے ذیل میں مجھے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ایک بیس بائیس سالہ نوجوان سے ملاقات ہوئی، جس کی تمام تعلیم دورِ حاضر کے مہنگے انگریزی میڈیم اداروں میں ہوئی تھی، دورانِ گفتگو اسے اردو و پنجابی کے مشاہیر ادب سے باالکل ناواقف پایا جبکہ انگریزی اور دیگر مغربی ادیب شعرا سے خوب واقف تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کیسا ظلم ہوگا کہ ہمارے بچے میر و غالب، مومن و داغ، آزاد و حالی، میاں محمد بخش و وارث شاہ، بابا فرید و سلطان باہو، رحمان بابا و خوشحال خان خٹک، مست توکلی، بھٹائی و سچل سرمست کی سچائی و مستی سے محروم ہونگے، ہماری مادری و قومی زبان کی شاعری کی دلگداز روایت کتب خانوں میں طاقِ نسیاں کی نذر ہوجائے گی۔ اسی ادب و شاعری میں ہمارے آبا واجداد کے تجربات زندگی کا نچوڑ اور لوک دانش کے موتی بکھرے پڑے ہیں، ہم اس خزانے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔میں دعوی سے کہ سکتا ہوں کہ انگریزی پر خاصہ عبور رکھنے والا پاکستانی بھی انگریزی شاعری و ادب سے حظ نہیں اٹھا پاتا جبکہ دوسری جانب برسوں انگریزی و مغربی دیاروں میں زندگی بتادینے والا اپنی زبان کے ایک مصرعہ پر پھڑک اٹھتا ہے، دل گداز ہوجاتا ہے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
اپنی زبان فطرت کی آواز ہے، اس میں جو بے ساختگی ہوسکتی ہے وہ زباںِ غیر میں ممکن ہی نہیں۔ لہذا انگریزی کو خیرباد کہیے اور جلد از جلد کہیے اور اپنی اصل کی طرف پلٹیے تاکہ قوم و ملک کی تعلیم و تربیت، اخلاق و کردار، طرزِ رہن سہن، رسوم و رواج، عادات میں اپنے مذہبی عقائد و نظریات کی اساس نمایاں ہو، اپنی مٹی و دھرتی و موسم کے رنگ جھلکتے ہوں،اپنی ثقافت و تہذیب کی گلکاریاں ظاہر ہوتی ہوں۔ اس مظبوط اساس اور خوبصورت تعمیر کے ساتھ جب یہ قوم چلے گی تو یقیناً علم و تفکر، تحقیق و تفصح، ایجاد و دریافت، ترقی و خوشحالی اور دنیا کی سربراہی و رہنمائی کی منازل پر سرافراز ہوسکے گی بصورت دیگر یہ قوم انگریزی کے نقصانات ہی گناتے رہے گی۔
از جلد کہیے اور اپنی اصل کی طرف پلٹیے تاکہ قوم و ملک کی تعلیم و تربیت، اخلاق و کردار، طرزِ رہن سہن، رسوم و رواج، عادات میں اپنے مذہبی عقائد و نظریات کی اساس نمایاں ہو، اپنی مٹی و دھرتی و موسم کے رنگ جھلکتے ہوں،اپنی ثقافت و تہذیب کی گلکاریاں ظاہر ہوتی ہوں۔ اس مظبوط اساس اور خوبصورت تعمیر کے ساتھ جب یہ قوم چلے گی تو یقیناً علم و تفکر، تحقیق و تفصح، ایجاد و دریافت، ترقی و خوشحالی اور دنیا کی سربراہی و رہنمائی کی منازل پر سرافراز ہوسکے گی بصورت دیگر انگریزی کے نقصانات ہی گناتے رہے گی۔ (منقول از مطاہر زیدی تحریک نفاذ اردو )