اندھی آنکھوں والا راجہ گدھ مورے گھر آوے گا
زندہ لاشے بھوکے بچے دیکھ نہیں کچھ پاوے گا
رنگ برنگے چہروں کے سیلاب میں رشتے ڈوب گئے
خون سفید اور سرخ زمیں ہے، سبز جنوں مر جاوے گا
یار احباب ہیں کوفے جیسے دشت ِ وطن کربل کی طرح
پنگھٹ پر ہے شمر کا پہرہ پانی کون پلاوے گا
اندھوں میں کانے راجوں کو ڈھونڈیں آنکھوں والے لوگ
عقل پہ پردے پڑ جاویں تو ، کون انہیں سرکاوے گا
موم کی چھتری اوڑھے نکلے جگنو تپتے صحرا میں
دھوپ میں جگنو قتل ہُوئے جو کون کسے دکھلاوے گا
آج مری مزدور کی چھوری داج ملا نہ دیگ پکی
راج محل کا راجہ پی کر رادھا خوب نچاوے گا
سرد رتوں کا چندا دل میں پریت کی جوت جگاوے ہے
سینے میں جو آگ بھری ہے عشق اسے گرماوے گا
لاکھوں رنگ سمیٹے دل میں کیا تصویر بناوے تو
مٹی کا باوا ہے مورکھ مٹی میں مل جاوے گا
دل کا دکھڑا لے بیٹھا درویش سجن کی محفل میں
جس نے من کی بات کہی یاں پگلے وہ پچھتاوے گا
.
فاروق درویش