اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اُٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
تم جو اک پل میں اُٹھاتے ہو چلے جاتے ہو
میں وہ دیوار گراتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
غم گساری بھی عجب کار ِمشقت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے ہوتے تھک جاتا ہوں
تبصرے کیجئے