اتنی ہیبت ہے کہ ہر سانس رکی جاتی ہے
زندگی ہے کہ ستم خیز چلی جاتی ہے
میری دن بھر کی مسافت کو اگر سمجھو تم
تب یہ جانو گے تھکن کیسے سہی جاتی ہے
ہارنے والو سنو! اس پہ یقیں ہے میرا
ہار سے پہلے کوئی جیت لکھی جاتی ہے
لاکھ پوشیدہ رکھو دل کی صدائے مبہم
بولتے رُخ سے اداسی بھی کبھی جاتی ہے
ہو محبت تو نگاہوں کو جھکائے رکھنا
خامشی سے ہی تو یہ بات کہی جاتی ہے
اس کے ابرو نے سکوں لوٹ لیا ہے دل کا
نوک مژگان کلیجے میں چھبی جاتی ہے
اب بڑھو آگے بھی ایمانؔ سنبھالو اس کو
زندگی عشق کے ہاتھوں سے گری جاتی ہے
ایمانؔ بخاری
تبصرے کیجئے