آئینے آنکھ میں چُھبتے تھے بِستر سے بٙدن کتراتا تھا
اِک یاد بٙسر کرتی تھی مُجھے میں سانس نہیں لے پاتا تھا
اِک شٙخص کے ہاتھ میں تھا سب کُچھ میرا کِھلنا بھی مُرجھانا بھی
رُوتا تھا تو رات اُجڑ جاتی تھی ہسنتا تھا تو دن بن جاتا تھا
مٙیں رٙبّ سے رابطے میں رہتا ممکن ہے اُس سے رابطہ ہو
مُجھے ہاتھ اٹھانا پڑتے تھے تب جا کے وہ فون اٹھاتا تھا
مُجھے آج بھی یاد ہے بچپن میں اگر کبھی اُس پر نظر پڑتی
میرے بستے پر پُھول برستے تھے میری تختی پر دل بن جاتا تھا
تہذیب حافی