لوگ

غزل

ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ

ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ گنتی ہوئی تو رہ گئے بس چیدہ چیدہ لوگ دستار کے حصول کا کوئی تو ہو حواز کس زعم میں ہیں مبتلا یہ سر بریدہ لوگ اے کاش اپنی موت

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 81,375 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement