ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ گنتی ہوئی تو رہ گئے بس چیدہ چیدہ لوگ دستار کے حصول کا کوئی تو ہو حواز کس زعم میں ہیں مبتلا یہ سر بریدہ لوگ اے کاش اپنی موت
لوگ
کچھ نہ کچھ توڑتے رہتے ہیں بناتے ہوئے لوگ کیا کریں حلقہءِ تعمیر میں آتے ہوئے لوگ جیب میں صرف زرِ خوف ہے ، کیا خرچ کریں قرض میں کٹتے ہوئے ، رنج کماتے ہوئے لوگ