اقرار گئے انکار گئے ہم ہار گئے آنکھوں سے سب آثار گئے ہم ہار گئے کچھ یادیں اُس کی بیچ سمندر ڈوب گئیں کچھ سپنے رہ اُس پار گئے ہم ہار گئے جب تنہا اپنی ذات سے
فرحت عباس شاہ
دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں جانتا ہوں کہ سرابوں میں گھرا ہوں یارو دوڑ پڑتا ہوں مگر پھر بھی کہ پانی تو
یہی ہے رسم ، یہی ہے نظام دنیا میں ادھر ہیں فوجیں ، ادھر ہیں عوام دنیا میں ہوں بادشاہتیں ، جمہوریت یا وردیت سبھی کا ایک ہی ہوتا ہے کام دنیا میں یہ ورلڈ بینک ہو
مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا میرے مولامرے سینے سے دباؤ تو ہٹا تُو بھلے آ میرے حلقے میں مگر قبل اس کے مال و دولت کی طرف اپنا جھُکاؤ تو ہٹا امن کی