” ایک خاتون نے نہایت دلچسپ سوال کیا، کہنے لگیں ’’تارڑ صاحب میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ ’’منہ ول کعبے شریف‘‘ پڑھا ہے جس میں آپ نے اپنی بیگم کا تذکرہ اس طرح کیا
عشق
ﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﺎﮦ ﻋﺸﻖ ﮨﮯ، ﺻﺪﺭِ ﺻﺪُﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﺖ ﻧﺸﯿﮟ ﮨﮯ ﺣﻀﻮﺭِ ﻋﺸﻖ ﺍﺱ ﺣُﺴﻦِ ﺧﻮﺵ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﺠﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺳﺮِ ﮐﻮﮦِ ﻃُﻮﺭ ﻋﺸﻖ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺳﺎﻣﻨﺎ
بادشاہ کے محل میں صفائی کرتے جب ایک بھنگی کی نظر ملکہ پہ پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پہ فدا ہو گیا۔ لیکن اپنی حیثیت اور ملکہ کی حیثیت میں فرق دیکھا تو سر جھکائے
وہ عشق جس کے قہر سے ڈرتے ہیں لوگ
کمبخت مرے صبر کے ٹکڑوں پہ پلا ہے
اچھا تمہارے شہر کا دستور ہو گیا جس کو گلے لگا لیا وہ دور ہو گیا کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا محلوں میں ہم نے کتنے ستارے