رئیس فروغ

غزل

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر ہم لوگ بُرے لوگ ہیں، ہم سے نہ ملا کر شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر باتوں کے لیے شکوہ

غزل

اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے

اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے حسن کو حسن بنانے میں مرا

غزل

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک

غزل

سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا

سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو وہ شاخین کاٹ لانا پھر انہیں زیبِ گلو

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 81,230 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement