افتخار راغبؔ

غزل

چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے

چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے اب وہ بجلی کہاں چمکتی ہے دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں آگ وہ دیر تک دہکتی ہے تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے دل

غزل

دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال

دشتِ جُنوں میں دوڑتا پھرتا ہے اک غزال کس طرح ہو بحال طبیعت میں اعتدال تجھ سا حسیں جہانِ تخیّل میں بھی کہاں کیوں ڈھونڈتا عبث میں کہیں بھی تری مثال مضبوط اِس قدر

غزل

آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا

آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا مجھ کو معلوم تھا بدلی ہوئی رُت کا انجام پھر بھی بے تاب اُمنگوں کا بھرم رکھنا

غزل

عکس کے بر عکس ہر انداز تھا

عکس کے بر عکس ہر انداز تھا جانے کس انجام کا آغاز تھا تیری ضد کی زد میں تھا کیا دل کا حال اک پرندہ تھا جو بے پرواز تھا آگے آگے تھا وہ راہِ عشق میں دم کہاں لیتا

غزل

ان کی دعا ہے ڈھال برابر

ان کی دعا ہے ڈھال برابر بچ جاتا ہوں بال برابر جیسا توٗ نے رکھ چھوڑا ہے ویسا ہی ہے حال برابر دل کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے دل کا استحصال برابر آنکھیں ہیں فریادی سن لے

غزل

چاہتے ہیں سکوں طلب تقسیم

چاہتے ہیں سکوں طلب تقسیم دولتِ درد ہوگی کب تقسیم  میرے حصّے میں “شب بخیر” آیا لفظ وہ کر رہے تھے جب تقسیم دونوں ہی مضطرب ہوئے دو چند بے قراری ہوئی

غزل

مرکزِ چشمِ دلربا ہو جاؤں

مرکزِ چشمِ دلربا ہو جاؤں کیا بنا لوں میں خود کو کیا ہو جاؤں  جاں لٹا کر تری محبت میں رسم بن جاؤں اور روا ہو جاؤں  ابتلا کوئی ابتلا نہ لگے یوں محبت میں مبتلا ہو

غزل

نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی

نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی تمھاری طرح ہے تمھاری ہنسی  چہکنے لگا میرے دل کا پرند نظر آئی تیری شکاری ہنسی  غم و رنج کی ساری افواج سے سدا جنگ رکھتی ہے جاری ہنسی

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 81,386 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement