دلاور علی آزر

غزل

ٹوٹ کر نیند نے آنکھوں کا بھرم توڑ دیا

ٹوٹ کر نیند نے آنکھوں کا بھرم توڑ دیا صبح کے شور میں اک خواب نے دم توڑ دیا پھینک کر سنگِ خموشی کسی دیوانے نے گنگناتی ہوئی ندی کا ردھم توڑ دیا اک صدی بیچ سے

قطعہ

دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی

دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی
روشنی مجھ میں ستارے سے نکل کر آئی
آنکھ میں اشک ریاضت سے ہوا ہے پیدا
یہ نمی وقت کے دھارے سے نکل کر آئی
دلاور علی آزر

قطعہ

یہ انکسـار ہمـاری سمجھ سے باہر ہے

یہ انکسـار ہمـاری سمجھ سے باہر ہے وہ ہم پہ ظلم کرے اور ہم ادب کیے جائیں بھری ہوئی ہیں اب آنکھیں مگر نہیں معـــلوم یہ اشک دل کی حمایت میں پیش کب کیے جائیں دلاور

قطعہ

خاکِ بدن سے پل میں گزرتی ہے یہ بَلا

خاکِ بدن سے پل میں گزرتی ہے یہ بَلا
بجلی سے تیز قوتِ رفتارِ مرگ ہے
آنکھوں میں لہلہاتے ہیں آثار زیست کے
سینے پہ دندناتا ہوا بارِ مرگ ہے
دلاور علی آزر

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 80,148 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement