ٹوٹ کر نیند نے آنکھوں کا بھرم توڑ دیا صبح کے شور میں اک خواب نے دم توڑ دیا پھینک کر سنگِ خموشی کسی دیوانے نے گنگناتی ہوئی ندی کا ردھم توڑ دیا اک صدی بیچ سے
دلاور علی آزر
سائے کو شاملِ قامت نہ کرو آخرِ کار
بڑھ بھی جائے تو یہ گھٹنے کے لیے ہوتا ہے
دلاور علی آزر
یہ اک فقیر کا حجرہ ہے آکے چلتے بنو
پڑی ہے طاق پہ دنیا اٹھا کے چلتے بنو
دلاور علی آزر
دور کے ایک نظارے سے نکل کر آئی
روشنی مجھ میں ستارے سے نکل کر آئی
آنکھ میں اشک ریاضت سے ہوا ہے پیدا
یہ نمی وقت کے دھارے سے نکل کر آئی
دلاور علی آزر
ہمارے بارے میں آئنے سے کرو معلوم
اسے خبر ہے کہ ہم کتنے روپ دھارتے ہیں
دلاور علی آزر
ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا
دلاور علی آزر
تمام روشنی سورج سے مستعار نہیں
کہیں کہیں تو ہمارے چراغ جلتے ہیں
دلاور علی آزر
رہے یہ تشنگی تا حشر قائم و دائم
بلا کی پیاس میں ترکِ سبو کیا گیا ہے
دلاور علی آزر
اس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں
لوگ ہنستے ہیں مری چاک گریبانی پر
دلاور علی آزر
یہ انکسـار ہمـاری سمجھ سے باہر ہے وہ ہم پہ ظلم کرے اور ہم ادب کیے جائیں بھری ہوئی ہیں اب آنکھیں مگر نہیں معـــلوم یہ اشک دل کی حمایت میں پیش کب کیے جائیں دلاور
خاکِ بدن سے پل میں گزرتی ہے یہ بَلا
بجلی سے تیز قوتِ رفتارِ مرگ ہے
آنکھوں میں لہلہاتے ہیں آثار زیست کے
سینے پہ دندناتا ہوا بارِ مرگ ہے
دلاور علی آزر
رحم آتا ہے مجھے ایسے فرشتوں پہ جنہیں
کام کو وقت پہ کرنے کی پڑی رہتی ہے
دلاور علی آزر
مرنے والوں ہی سے کچھ ربط بڑھایا جائے
جینے والوں کو تو مرنے کی پڑی رہتی ہے
دلاور علی آزر
سانس روکے ہوئے آئینے کی حیرت سے اُدھر
اُس پری رو کو سنورنے کی پڑی رہتی ہے
دلاور علی آزر
شانوں پہ کس کے آئے گا یہ بارِ کائنات
اب تک تو خیر میں ہوں پر آئندہ کون ہے
دلاور علی آزر
یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کئی دنیاؤں کو
ایسا پھیلاؤ سمٹنے کے لیے ہوتا ہے
دلاور علی آزر
شعر وہ لکھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جاؤ
دلاور علی آزر
میرے رستے کے علاوہ بھی کئی رستے تھے
کیوں قدم رکھ کے مرا نقشِ قدم توڑ دیا
دلاور علی آزر
میری تنہائی نے پیدا کیے سائے گھر میں
کوئی دیوار، کوئی در سے نمودار ہُوا
دلاور علی آزر
اٹھنے کے لیے قصد کیا میں نے بلا کا
اب لوگ یہ کہتے ہیں مقدر سے اٹھا میں
دلاور علی آزر
کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے انھیں دیکھنا نہیں آتا
دلاور علی آزر
چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہوچکی ہے
دیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
دلاور علی آزر