سخن کے باب میں اِک نام ہے علی آزر
علی کے نام کا صدقہ ہے بے نشان تھا میں
دلاور علی آزر
دلاور علی آزر
عجیب سانحہ گزرا لبوں پہ پیاس لیے
ندی کے سامنے سادات قتل ہوتے رہے
کُشادہ کرتے رہے ہم پرائے شہروں کو
اور اِس میں اپنے مضافات قتل ہوتے رہے
دلاور علی آزر
ورنہ رکنا تھی کہاں باغ میں یلغار مری
وہ تو مَس ہوگئی اِک پھول سے تلوار مری
دلاور علی آزر
اِس بار بلندی سے گراؤں گا میں اِس کو
ممکن ہے کوئی سُن لے چھناکا مرے دل کا
دلاور علی آزر
اس نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش آزر
میں نے اک نام لکھا اور قلم توڑ دی
دلاور علی آزر
گھر میں گلدان سجائے ہیں تری آمد پر
اور ایک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
دلاور علی آزر
اپنی تعظیم لازمی ہے مجھے
دفن ہیں میرے رفتگاں مجھ میں
دلاور علی آزر
اپنے منظر کے سوا کون ہے غم خوار مرا
اپنی تصویر کے رنگوں ہی سے یاری ہے مری
دلاور علی آزر
میں نے اک رات کی رعایت سے
اپنی مرضی کا دن بنا لیا ہے
دلاور علی آزر
وہ مجھے دیکھتا رہے اور میں
دیکھنا دیکھتا رہوں اس کا
دلاور علی آزر
تم کو معنی سے علاقہ ہے تو رکھو صاحب
میں تو مصروف ہوں لفظوں کی ہوا کھانے میں
دلاور علی آزر
کوئی صدا نہ کوئی نوحہ کان پڑتا ہے
عجب سکوت ہے کیا کیا گمان پڑتا ہے
دلاور علی آزر
آزر اس ہجر کے دوران کھلا ہے کہ یہ جسم
سانس لینے کی مشقت سے بھی تنگ آتا ہے
دلاور علی آزر
مجھ کو مٹی سے علاقہ ہے اسے پانی سے
گویا مل سکتے ہیں دونوں بڑی آسانی سے
دلاور علی آزر
میں اپنی جستجو میں یہاں تک پہنچ گیا
اب آئینہ ہی رہ گیا ہے درمیان میں
دلاور علی آزر
سطر در سطر یہاں لفظ سے لو پھوٹتی ہے
یہ جو تحریر ہے تصویر چراغوں کی نہ ہو
دلاور علی آزر
بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا
وہ صور پھونک رہا ہے زمیں سے کان لگا
سلگتی ریت پہ کٹ کر گرا وجود اس کا
وہ تیغ کھینچ رہا تھا کہ تیر آن لگا
دلاور علی آزر
حدِ ادب کی بات تھی حدِ ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا ، اس نے کہا کہ جائیے
دلاور علی آزر
بخت کا بھید ستارے میں نہیں ہو سکتا
آدمی اتنے خسارے میں نہیں ہو سکتا
دلاور علی آزر
وہ زخم جسم پہ آیا نہیں ابھی، جس کے
کریدنے کو یہ ناخن سنبھال رکھا ہے
دلاور علی آزر
اس کی آنکھیں دیکھنے والو تم پر واجب ہے
شکر کرو اس دنیا میں کچھ اچھا دیکھ لیا
دلاور علی آزر
دھوپ کی شدت سہہ کر مجھ کو سایہ بہم پہنچاتا ہے
کتنا اچھا پیڑ ہے بالکل جیسے میرے ابو تھے
دلاور علی آزر
اس کے لیے تو خودکشی آزر حلال ہو
کچھ بھی نہ کرسکے جو مقدر کے خوف سے
دلاور علی آزر
سارا دن ساتھ رہو سائے کی صورت اپنے
شام ہوتے ہی بہانے سے الگ ہو جاؤ
دلاور علی آزر
کسی منظر میں ہم دونوں کھڑے ہیں
کسی منظر میں ویرانی ہماری
دلاور علی آزر
ہیں جمع سننے والے الاؤ کے اردگرد
کردار جل رہے ہیں کہانی میں آگ ہے
شکلیں بدل رہی ہے بہ تدریج یہ ہوس
بچپن میں شعلہ رو تھی، جوانی میں آگ ہے
دلاور علی آزر
وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا سبھی کو نیند آچکی تھی یوں تو پری سے مل کر مگر وہ اک طفل جو کہانی سے ڈر رہا تھا
خدا کا شکر ہے نشہ اتر گیا میرا
کہ میں سبو میں سمندر الٹنے والا تھا
دلاور علی آزر
اس بات پہ موقوف ہے صدیوں کی مسافت
اس آنکھ میں ٹھہروں کہ برابر سے گزر جاؤں
دلاور علی آزر
آسماں ٹوٹ چکا اپنے سروں پر آزر
اب تو آنکھوں پہ کوئی سیلِ بلا ٹوٹتا ہے
دلاور علی آزر