بشیر بدر

غزل

اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ

اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ مرے گلاس میں تھوڑی شراب دے جاؤ بہت سے اور بھی گھر ہیں خدا کی بستی میں فقیر کب سے کھڑا ہے جواب دے جاؤ میں زرد پتوں پر شبنم سجا

غزل

ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے

ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ بڑا اندھیرا ہے اداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی اب آنسوؤں سے رلاؤ بڑا اندھیرا ہے کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی

غزل

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں گھنے دھوئیں میں فرشتے بھی آنکھ ملتے ہیں تمام رات کھجوروں کے پیڑ جلتے ہیں میں شاہراہ

غزل

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا اب ان دنوں میری غزل خوشبو کی اک تصویر ہے ہر لفظ غنچے کی طرح کھل کر ترا چہرہ ہوا

غزل

نظر سے گفتگو خاموش لب تمہاری طرح

نظر سے گفتگو خاموش لب تمہاری طرح غزل نے سیکھے ہیں انداز سب تمہاری طرح جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادر آب دکھائی دور سے دیتے ہیں سب تمہاری طرح بلا رہا ہے

غزل

چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی

چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے کوٹ کے بٹن کھولے ٹائی کی گرہ کھولی شیشے کی سلائی

غزل

میری آنکھوں میں ترے پیار کا آنسو آئے

میری آنکھوں میں ترے پیار کا آنسو آئے کوئی خوشبو میں لگاؤں تری خوشبو آئے وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے ہار پہنانے مجھے پھول سے بازو آئے میں نے دن رات خدا سے

غزل

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے ابھی تجھ سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کہاں ہے وہی شخص جس پہ اپنے دل و جاں نثار کر دوں وہ اگر خفا نہیں ہے تو ضرور بد گماں ہے

غزل

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے

جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے یوں پیار نہیں

غزل

مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو

مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو میری طرح تم بھی جھوٹے ہو اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو اجلے اجلے پھول کھلے تھے بالکل جیسے تم ہنستے ہو مجھ کو شام

غزل

جب تک نگار داشت کا سینہ دکھا نہ تھا

جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا صحرا میں کوئی لالۂ صحرا کھلا نہ تھا دو جھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں اس وقت میری عمر کا دریا چڑھا نہ تھا جاگی نہ

غزل

اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے

اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا

غزل

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو بلا رہی ہے بہت آسمان کی خوشبو بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے حویلیوں میں مرے خاندان کی خوشبو سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی

غزل

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں رات تیری یادوں

غزل

کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے

کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے کیوں حویلی کے اجڑنے کا مجھے افسوس ہو سیکڑوں بے گھر پرندوں کے ٹھکانے ہو گئے جاؤ ان کمروں کے

غزل

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں

خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں تم چھت پہ نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں اس شہر میں

غزل

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی

بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی یہ دنیا دلہن ہے جلائی ہوئی بھری دوپہر کا کھلا پھول ہے پسینے میں لڑکی نہائی ہوئی کرن پھول کی پتیوں میں دبی ہنسی اس کے ہونٹوں پہ آئی

غزل

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو

وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو اتنا ہی اس کا ساتھ تھا افسوس مت کرو انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت کوئی نہیں ہے بے وفا افسوس مت کرو اس بار تم کو آنے میں کچھ

غزل

اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں

اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں وہ بھی آخر مل گیا اب کیا کریں ہلکی ہلکی بارشیں ہوتی رہیں ہم بھی پھولوں کی طرح بھیگا کریں آنکھ موندے اس گلابی دھوپ میں دیر تک بیٹھے

غزل

عظمتیں سب تری خدائی کی

عظمتیں سب تری خدائی کی حیثیت کیا مری اکائی کی مرے ہونٹوں کے پھول سوکھ گئے تم نے کیا مجھ سے بے وفائی کی سب مرے ہاتھ پاؤں لفظوں کے اور آنکھیں بھی روشنائی کی میں

غزل

اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے

اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے ہم وہ پیاسے ہیں جو دریاؤں کو ترسائیں گے خواب آئینے ہیں آنکھوں میں لیے پھرتے ہو دھوپ میں چمکیں گے ٹوٹیں گے تو چبھ جائیں

غزل

مسافر کے رستے بدلتے رہے

مسافر کے رستے بدلتے رہے مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے مرے راستوں میں اجالا رہا دیے اس کی آنکھوں میں جلتے رہے کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا مرے پاؤں شعلوں پہ

غزل

وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے

وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے چاند کہتے ہیں کسے خوب سمجھتے ہوں گے اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے میں سمجھتا تھا

غزل

میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا

میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا تمہارا فیصلہ تھا یاد ہوگا بہت سے اجلے اجلے پھول لے کر کوئی تم سے ملا تھا یاد ہوگا بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں کوئی آنسو گرا

Advertisement

ہمارا فیس بک پیج

Blog Stats

  • 80,153 hits

Advertisement

Advertisement

Advertisement