اداس رات ہے کوئی تو خواب دے جاؤ مرے گلاس میں تھوڑی شراب دے جاؤ بہت سے اور بھی گھر ہیں خدا کی بستی میں فقیر کب سے کھڑا ہے جواب دے جاؤ میں زرد پتوں پر شبنم سجا
بشیر بدر
مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی تری یاد آئے تو چپ رہوں ذرا چپ رہوں تو غزل کہوں یہ عجیب آگ کی بیل تھی
ہمارے پاس تو آؤ بڑا اندھیرا ہے کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ بڑا اندھیرا ہے اداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی اب آنسوؤں سے رلاؤ بڑا اندھیرا ہے کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی
ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اس سے لپٹ کے رو لینا اس کے بعد بہت تنہا ہو جیسے جنگل کا رستہ جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ
اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں گھنے دھوئیں میں فرشتے بھی آنکھ ملتے ہیں تمام رات کھجوروں کے پیڑ جلتے ہیں میں شاہراہ
شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا اب ان دنوں میری غزل خوشبو کی اک تصویر ہے ہر لفظ غنچے کی طرح کھل کر ترا چہرہ ہوا
نظر سے گفتگو خاموش لب تمہاری طرح غزل نے سیکھے ہیں انداز سب تمہاری طرح جو پیاس تیز ہو تو ریت بھی ہے چادر آب دکھائی دور سے دیتے ہیں سب تمہاری طرح بلا رہا ہے
چائے کی پیالی میں نیلی ٹیبلٹ گھولی سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے کوٹ کے بٹن کھولے ٹائی کی گرہ کھولی شیشے کی سلائی
میری آنکھوں میں ترے پیار کا آنسو آئے کوئی خوشبو میں لگاؤں تری خوشبو آئے وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے ہار پہنانے مجھے پھول سے بازو آئے میں نے دن رات خدا سے
یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے ابھی تجھ سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کہاں ہے وہی شخص جس پہ اپنے دل و جاں نثار کر دوں وہ اگر خفا نہیں ہے تو ضرور بد گماں ہے
جب رات کی تنہائی دل بن کے دھڑکتی ہے یادوں کے دریچوں میں چلمن سی سرکتی ہے لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے یوں یاد تری شب بھر سینے میں سلگتی ہے یوں پیار نہیں
مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو میری طرح تم بھی جھوٹے ہو اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو اجلے اجلے پھول کھلے تھے بالکل جیسے تم ہنستے ہو مجھ کو شام
جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا صحرا میں کوئی لالۂ صحرا کھلا نہ تھا دو جھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں اس وقت میری عمر کا دریا چڑھا نہ تھا جاگی نہ
اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا
چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو بلا رہی ہے بہت آسمان کی خوشبو بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے حویلیوں میں مرے خاندان کی خوشبو سنا کے کوئی کہانی ہمیں سلاتی
سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں رات تیری یادوں
کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے کیوں حویلی کے اجڑنے کا مجھے افسوس ہو سیکڑوں بے گھر پرندوں کے ٹھکانے ہو گئے جاؤ ان کمروں کے
خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں تم چھت پہ نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں اس شہر میں
بڑے تاجروں کی ستائی ہوئی یہ دنیا دلہن ہے جلائی ہوئی بھری دوپہر کا کھلا پھول ہے پسینے میں لڑکی نہائی ہوئی کرن پھول کی پتیوں میں دبی ہنسی اس کے ہونٹوں پہ آئی
وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو اتنا ہی اس کا ساتھ تھا افسوس مت کرو انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت کوئی نہیں ہے بے وفا افسوس مت کرو اس بار تم کو آنے میں کچھ
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا کہیں آنسوؤں سے
اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں وہ بھی آخر مل گیا اب کیا کریں ہلکی ہلکی بارشیں ہوتی رہیں ہم بھی پھولوں کی طرح بھیگا کریں آنکھ موندے اس گلابی دھوپ میں دیر تک بیٹھے
عظمتیں سب تری خدائی کی حیثیت کیا مری اکائی کی مرے ہونٹوں کے پھول سوکھ گئے تم نے کیا مجھ سے بے وفائی کی سب مرے ہاتھ پاؤں لفظوں کے اور آنکھیں بھی روشنائی کی میں
سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں میں جنم جنم سے اسی کا ہوں اسے آج تک یہ پتا نہیں اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے کوئی پھول
اب تو انگاروں کے لب چوم کے سو جائیں گے ہم وہ پیاسے ہیں جو دریاؤں کو ترسائیں گے خواب آئینے ہیں آنکھوں میں لیے پھرتے ہو دھوپ میں چمکیں گے ٹوٹیں گے تو چبھ جائیں
سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں مانگا خدا سے رات دن تیرے سوا کچھ بھی نہیں سوچا تجھے دیکھا تجھے چاہا تجھے پوجا تجھے میری خطا میری وفا تیری خطا کچھ بھی
مسافر کے رستے بدلتے رہے مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے مرے راستوں میں اجالا رہا دیے اس کی آنکھوں میں جلتے رہے کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا مرے پاؤں شعلوں پہ
وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے چاند کہتے ہیں کسے خوب سمجھتے ہوں گے اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے میں سمجھتا تھا
میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا تمہارا فیصلہ تھا یاد ہوگا بہت سے اجلے اجلے پھول لے کر کوئی تم سے ملا تھا یاد ہوگا بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں کوئی آنسو گرا
وہی تاج ہے وہی تخت ہے وہی زہر ہے وہی جام ہے یہ وہی خدا کی زمین ہے یہ وہی بتوں کا نظام ہے بڑے شوق سے مرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی یہ زباں کسی نے خرید