گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ چودہویں قسط

قندھار سے گوانتاناموبے تک ایک گلاس پانی:

میرے ساتھ ہی بندھے خیر اللہ خیر خواہ (سابق گورنر ہرات) نے کئی بار ہاتھوں میں تکلیف کی شکایت کی مگر بے سود۔ میں بھی سخت اذیت سے دوچار تھا۔ کمر ٹوٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ پاؤں میں اتنا شدید درد تھا جیسے کاٹے گئے ہوں۔ شکایت اس لیے نہیں کر سکتا تھا کہ قصائی کو کون ڈاکٹر سمجھتا ہے۔ کچھ دیر بعد بہت سے ساتھیوں نے تکلیف کے مارے باقاعدہ رونا شروع کر دیا جیسے ہر کوئی نزع کی حالت میں ہو۔ ہمیں پرواز سے چار گھنٹے قبل جہاز میں باندھا گیا تھا تین گھنٹے جہاز اترنے کے بعد رکھا گیا جبکہ بیس گھنٹے کی مسافت تھی۔ اس طرح جہاز سے قید خانے تک ہم نے جو وقت لیا وہ کل ملا کر 30گھنٹے بنتا ہے۔ ہم 30گھنٹے زندگی کے سخت ترین عذاب سے گزرے۔ ہمیں توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کڑے وقت کی جزا اپنی رضا کی صورت میں ضرور عطا فرمائے گا۔ قندھار سے گوانتاناموبے تک ہر قیدی کو صرف ایک گلاس پانی اور ایک عدد سیب دیا گیا۔

شاباش انسانی حقوق کے علمبردارو! 30گھنٹے اور ایک سیب اور ایک گلاس پانی؟ اس سے اندازہ لگائیے کہ امریکیوں کے دلوں میں انسانیت کا کتنا احترام ہے ۔ میں نے سیب کو ہاتھ لگایا نہ پانی کو۔ اول تو ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ دوم اگر میں کچھ کھاتا پیتا تو پیشاب کی صورت میں ایک نئے عذاب سے گزرنا پڑتا۔ ہم سب کے ہاتھ پاؤں سوج گئے دس بارہ گھنٹے تو بالکل بے حس ہوگئے۔ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ہاتھ پاؤں میں چبھ گئی تھیں جن کو اتارتے وقت امریکیوں کو بھی دقت ہوئی۔ دوران سفر جہاز کچھ وقفے کے لیے ایک جگہ اترا بھی تھا مگر ہمیں پتہ نہیں چلا کہ وہ کون سی جگہ تھی۔

گوانتاناموبے منتقلی:

ہمیں جہاز سے ایک ایک کرکے اتارا گیا۔ پھر ایک دوسرے کے پیچھے باندھ کر گاڑیوں میں ٹھونسا گیا۔ انگلش اور عربی زبانوں میں حرکت نہ کرنے کا حکم بار بار سنایا جاتا۔ کوئی حرکت تو تو زور دار لات اس کا مقدر بن جاتی۔ میں نے بھی متعدد لاتیں کھائیں۔ ہمارے ہاتھ پاؤں کی سوجن ایک مہینے تک برقرار رہی جبکہ تین مہینے تک ہاتھ پاؤں ایسے محسوس ہوتے تھے جیسے شل ہو چکے ہوں۔ ہم سب کو گاڑیوں سے اتارا گیا اور سیدھا ایک کلینک لے جایا گیا جہاں سارے قیدیوں کے ایکسرے کرائے گئے۔ پھر ایک تفتیش کمرے میں لے جایا گیا میری باری آئی تو پہلے مجھے اس کمرے میں باندھا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک شخص آیا جو فارسی بولتا تھا۔ اس نے پوچھا ’’کیسے ہو؟ میرا نام ٹام ہے مجھے یہاں تفتیش کے لیے مامور کیا گیا ہے۔‘‘ میں سخت تھکا ہوا تھا بات نہ کر سکتا تھا۔ صرف اتناکہا کہ میں بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر دیکھیں گے مگر اس کا بات کرنے کا اصرار بڑھتا رہا۔ میں نے سوچا کہ پہلے گوانتاناموبے بھیجے جانے سے ڈرتا تھا اب ڈر کاہے کا ہے؟ بلکہ اب تو میں موت کو اپنی زندگی پر ترجیح دیتا تھا۔ ٹام جتنا اصرار کرتا اتنا ہی سخت ہوتا گیا حتیٰ کہ وہ مایوس ہو کر واپس پلٹ گیا۔

پانچ مہینے بعد وضو کا پانی ملا:

کچھ دیر بعد فوجی آئے اور مجھے روانہ کر دیا ہم سب قیدیوں کو اس قید خانے میں لے جایا گیا جو آہنی کنٹینر سے بنایا گیا تھا۔ یہاں ہاتھ پاؤں کھولے گئے۔ ایک فوجی آیا اور قیدیوں کو پہلے سے تیار کیا گیا کھانا دیا۔ یہاں خوشی کی بات یہ تھی کہ پانچ مہینے کے بعد پانی ملا جس سے ہم وضو کر سکیں۔ میں نے جلدی جلدی وضو بنایا نماز پڑھی اور سو گیا۔ کچھ دیر سویا تھا کہ قیدیوں کی آواز سے جاگا جو بلند آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ رات لمبی ہوگئی تھی کچھ بھائیوں نے کہا کہ یہاں دھوپ نہیں نکلے گی کسی نے خیال ظاہر کیا کہ یہاں رات18گھنٹے کی ہوگی۔ حقیقت کوئی بھی نہ جانتا تھا میں پھر سو گیا۔ تہجد کے کے لیے بھی نہ اٹھا۔ فجر کی نماز تک گہری نیند سوتا رہا۔ نہ فوجیوں کی آواز تھی نہ کتوں کے بھونکنے کی۔ صبح ہوئی۔ نماز پڑھی پھر گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اچھی بات یہ تھی کہ اندر بلاک میں باتوں پر پابندی نہ تھی اور فوجیوں کا رویہ بگرام اور قندھار میں متعین فوجیوں سے بہتر تھا۔ نسبتاً آزادی تھی مگر یہ آزادی قفس کے اندر تھی۔ ہر قید خانے کی لمبائی چھ فٹ اور اونچائی ساڑھے چار فٹ تھی۔ جستی چادر کی ایک شیٹ قید خانے کے درمیان میں ویلڈ کی گئی تھی جو چارپائی کا کام دیتی تھی۔ بیت الخلاء قید خانے کے اندر ہی بنایا گیا تھا۔ گویا نیند، خوراک، نماز اور فع حاجت ساری ضرورتیں اتنی سی مختصر جگہ میں پوری کرنی ہوتی تھیں۔ اس جگہ کو آپ پنجرے کا نام دے سکتے ہیں۔ ’’کیف حالک‘‘دو پنجروں کے مابین آہنی جالیاں تھیں۔ رفع حاجت کے وقت بہت مشکل پیش آتی تھی۔ کوشش ہماری یہ ہوتی کہ ایکد وسرے سے پردہ کر سکیں۔ ہم جس پرواز میں آئے تھے اس میں7افغانی بھائی تھے جبکہ باقی عرب تھے۔

ان میں خیر اللہ خیر خواہ، حاجی محمد صراف، مولوی محمد رحیم مسلم دوست، بدر الزمان، سنگین خیر اللہ اور دوسرے بھائی جن کے نام اب یاد نہیں شامل تھے۔ ساتھی کہتے تھے کہ یہ گوانتاناموبے نہیں عرب کا کوئی جزیرہ ہے کیونکہ آب و ہوا عرب ممالک کی طرح ہے۔ ہمیں قبلے کی سمت کا بھی کچھ پتہ نہ تھا۔ عرب بھائی امریکیوں کے ہر قول و فول پر شک کیا کرتے تھے۔ بعض قیدیوں کو شک تھا کہ پہرے پر مامور فوجی امریکی نہیں عرب ہیں۔ اسی لیے وہ ان فوجیوں کے سامنے عربی میں بات نہیں کیا کرتے تھے تاکہ ان کے راز افشا نہ ہوں کبھی کبھی ان فوجیوں کے منہ سے بھی عربی الفاظ نکلتے تھے مثلا کسی قیدی کے سامنے آتے تو کہتے ’’کیف حالک؟

گوانتاناموبے کا پہلا کیمپ:

ہمیں گوانتاناموبے میں پہلی دفعہ جس کیمپ میں لے جایا گیا اس کے 8بلاک تھے۔ ہر بلاک میں48قیدیوں کو رکھا جاتا۔ دوپھرنے یعنی واک کی جگہیں اور4باتھ روم بھی تھے۔ یہ سارے بلاک لوہے کے بنائے گئے تھے چھت اور فرش بھی آہنی تھے اور دیواریں بھی۔ دیوار میں ایک چھوٹا سوراخ تھا جس سے ہمیں کھانا دیا جاتا تھا۔ یہ سوراخ صرف کھانے کے وقت ہی کھلتا۔ یہاں کے فوجی انتہائی بداخلاق تھے۔ قیدیوں کو انتہائی کم کھانا دیتے تھے۔ ایک بلاک کے قیدی دوسرے بلاک کے قیدیوں سے بات چیت نہ کر سکتے تھے۔ سرخ رنگ کے موٹے اور کھردرے کپڑے پہننے کے لیے دیئے جاتے۔ زیر جامہ کچھ نہ تھا۔ جس کی وجہ سے بہت سے قیدیوں کی جلد خراب ہوگئی تھی۔ ہر قیدی کے لیے کوٹھڑی نما کمرہ مخصوص تھا۔جس میں دو پتلے بستر، ایک چادر، دو گلاس ، ایک پانی کی بوتل، دو تولیے، ایک چھوٹی پلاسٹک شیٹ، ایک ٹوتھ برش، ایک ٹوٹھ پیسٹ اور قرآن مجید کا ایک نسخہ پڑا ہوتا۔

رہائی کے بعد لڑائی اور شہادت:

کوئی قیدی سزا کا مستحق قرار پاتا تو صرف پلاسٹک کی شیٹ اس کے پاس رہنے دی جاتی تھی۔ باقی چیزیں لے لی جاتیں۔ قیدیوں کا زیادہ تر وقت سزا میں گزرتا بعد میں دوسرا کیمپ بھی بھی۔ جنرل بدل گئے جس سے شرائط میں بھی تبدیلیاں آگئیںَ ۔سختیاں بڑھ گئیں اور تین مزید بلاک قائم کئے گئے ۔مذہبی کتابیں لے لی گئیں روزانہ حجامت کی جانے لگی۔ قیدیوں کو چار کیٹیگریز میں تقسیم کر دیا گیا۔ سب سے سخت شرائط والا درجہ چوتھا تھا۔ اس درجے والے قیدیوں کو صرف پلاسٹک کی ایک شیٹ دی جاتی تھی جو سردی سے بچاؤ کے لیے ناکافی تھی۔ ارزگان کے رہنے والے ملا عبدالغفور میرے پڑوسی تھے۔ ہر وقت سزا بھگتتے رہتے۔

امریکی تعصب ان کے لیے دن بدن بڑھتا رہا۔ وہ آخر کار اتنا تنگ آگئے کہ جب بھی کوئی امریکی فوجی نظر آتا تو گلے پر ذبح کرنے کے انداز میں انگلی پھیر کر اپنے انداز میں امریکی فوجی کو ذبح کرنے کی دھمکی دیتے اور ہر وقت انتقام لینے کی باتیں کیا کرتے تھے۔ امریکی ترجمانوں کو بھی برا بھلا کہتے تھے۔ میں ان کو بہت سمجھاتا تھا اور سزا سے ڈراتا تھا لیکن وہ نہ مانتے۔ پھر کچھ عرصے بعد ان کی شہادت کی خبر ملی۔ اسی طرح میری گوانتاناموبے میں موجودگی کے دوران قندھار کے ملا شہزادہ کی شہادت کی خبر بھی ملی جن کو رہا کیا جاتا تو وہ افغانستان واپسی پر بھی ان کے خلاف لڑناشروع کر دیتے اور پھر گرفتار ہو کر یہاں پہنچ جاتے۔

گولڈ بلاک کی کوٹھڑی نمبر 15:

میں سال2003ء تک ڈیلٹا کیمپ کے بلاک نمبر1، گولڈ بلاک کی کوٹھڑی نمبر15اور 8میں قید رہا۔ پھر تیسرے کیمپ کی 30نمبر کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ بلاک نسبتاً لطف اندوز اسلیے تھا کہ یہاں سے دریا نظر آٹا تھا جو صرف50میٹر دور تھا۔ کشتیاں بھی نظر آجاتی تھیں۔کچھ عرصہ بعد انفرادی کوٹھڑی لے جایا گیا۔ میں زیادہ تر وہاں رہا۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف پندرہ منٹ واک کی اجازت ملتی اس دوران بھی ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے۔ بہت عرصے تک ناخن کاٹنے اور سر کے بال مونڈنے کی مشین کا بندوبست نہ تھا کھانابہت کم ملتا تھا کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ پورا مہینہ ایک مرتبہ بھی پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوتا۔ بھوکا رکھنے کی وجہ سے اکثر قیدی بیمار رہتے، کھانا فوجی تقسیم کرتے تھے اور اس تقسیم کا کوئی قانونی اندازہ نہیں تھا۔ پلاسٹک کے لفافوں اور برتنوں میں خوراک تقسیم ہوتی تھی ڈسپوزایبل برتن واپس لے لئے جاتے اور تلف کرنے کی بجائے انہی برتنوں میں دوبارہ کھانادیا جاتا۔ خوراک میں مچھلی، مرغی، گوشت، بھنڈی، لوبیا،گوبھی، آلو، چاول اور انڈے ملتے تھے۔

ایک نوالے کے برابر چاول:

روٹی چار قسم کی ہوتی، کھانا باری باری پکتا تھا۔ سبزی ابلی ہوئی ملتی تھی اور سالن اکثر ٹھنڈا ہوتا جس کیوجہ سے قیدیوں کو قبض کی شکایت رہتی تھی۔مچھلی بدبودار ہوتی اور مرغی کے گوشت میں خونصاف نظر آتا، چاول اتنے کم ہوتے کہ نصیب اللہ نامی ہمارے ایک ساتھی ایک نوالہ بھر کر کھا لیتے تھے۔ روٹی اتنی کم مقدار میں ملتی کہ بچے کا پیٹ بھی اس سے نہ بھر سکتا تھا۔ تاہم دن کو تین قسم کا فروٹ بھی دیا جاتا جبکہ ناشتے میں ایک گلاس دودھ دیا جاتا جو روٹی کی کمی پوری کر دیتا تھا۔ متعصب فوجیوں کی ڈیوٹی ہوتی تو فروٹ اور دودھ نہ ملتا اور نماز با جماعت پڑھنے پر پابندی لگ جاتی۔

بند کوٹھڑیوں میں قیدیوں کو نماز کے اوقات کا پتہ نہ چلتا اس لیے ہرقیدی اپنے اندازے کے مطابق نماز پڑھتا۔ نسبتاً کھلے قید خانوں سے آذان کی آواز آتی تو امریکی فوجی ہوا میں مکا لہرا کر نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ڈیلٹا کا تیسرا کیمپ بننے سے مشکلات اور بڑھ گئیں۔ کھانا کم کر دیا گیا اور قیدیوں کی حالت مزید خراب ہوگئی۔سزا میں مزیدسختی لائی گئی۔ کیوبک کے نام سے نیا کیمپ قائم کیا گیاجہاں سخت سردی میں قیدیوں کو صرف ایک نیکر میں رکھا جاتا۔ یہ قیدی لوہے کی ٹھنڈی چادر پر سوتے اور نماز بھی نیکر میں ہی پڑھتے۔

(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔)

مزید پڑھیں: گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ پندرہویں قسط

مزید پڑھیں: گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ تیرہویں قسط

نوٹ: ادبستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔