کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگر چاند ستارے ہوتے

ہم نے اک دوجے کو خود ہار دیا، دکھ ہے یہی
کاش ہم دنیا سے لڑتے ہوئے ہارے ہوتے

اتنی حیرت تمھیں مجھ پر نہیں ہونی تھی، اگر
تم نے کچھ روز مری طرح گزارے ہوتے

یار! کیا جنگ تھی جو ہار کے تم کہتے ہو
جیت جاتے تو خسارے ہی خسارے ہوتے

یہ جو آنسو ہیں مری پلکوں پہ پانی جیسے
اس کی آنکھوں سے ابھرتے تو ستارے ہوتے

یہ جو ہم لوگ ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے

تم کو انکار کی خو مار گئی ہے واحد
ہر بھنور سے نہ الجھتے تو کنارے ہوتے

واحد اعجاز میر