ٹیکس لگ گیا!

بَھنگڑے پہ اور دَھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.
واعِظ کے قِیل و قَال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

شادی کے بارے میں نہ کبھی سوچنا چَھڑو.
سنتے ہیں اس خیال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

ہے جِس حَسِیں کے گال پہ ڈِمپل کہ کوئ تِل.
ہر اُس حَسِیں کے گال پہ ہھی ٹیکس لگ گیا.

کھانے کے بعد دانتوں میں تِیلا نہ پَھیرنا.
دانتوں کے ہے خلال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

کرتی ہیں جو جو ماسِیاں دَس دَس گھروں میں کام.
اُِن ماسِیوں کے مال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

جنگل میں مَور ناچا تو آئے گا اُس کو بِل.
اب ہرنیوں کی چال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

کھانا کسی کو کھاتے ہوئے دیکھنا بھی مَت.
بُھوکے کی اب تو رال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

پہلے تو بچّے دو ہی تھے اچّھے مگر یہ کیا.
اب میرے ایک “بال” پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

سَنڈے کے سَنڈے مِلتے تھے ہم مُفت میں مگر.
اب یار سے وِصال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

کیوں اِتنے ٹیکس لگ گئے مَت پُوچھئیے سوال.
گِیلانی اِس سَوال پہ بھی ٹیکس لگ گیا.

سید سلمان گیلانی