مسحور نظر کو سمجهے شفا ، وه کارِ شفاعت کر بیٹهے

مسحور نظر کو سمجھے شفا ، وه کارِ شفاعت کر بیٹھے
بے تابیءِ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے

بے نام کسک دل میں ھی رہی یہ بات بھی اس تک کب پہنچی
اک طفل کوئی جیسے کے یونہی مہ تاب کی حسرت کربیٹھے

پھر آج تلک خود ہی سے خفا ، خود ضبط سے اپنے شرمنده
اک روز جو یوں تکلیف بڑھی ، ہم ان سے شکایت کربیٹھے

اس حسن کی کچھ تمثیل تو ہو، یہ کوهِ گراں سر کرنے کو
کیا کیا نہ لغت سے لفظ چنے، کیا کیا نہ عبارت کر بیٹھے

اس جانِ غزل کے ناز کے تو انداز بھی ایسے یکتا ہیں
کہ ہم نے انہیں جب حور کہا برہم ہی طبیعت کربیٹھے

وه میر تقی بھی ڈھونڈا کیے حیلہءِ تکلم شعروں میں
اے جانِ ظفر از راهِ سخن ہم بھی یہ جسارت کر بیٹھے

ظفؔر عالم

موضوعات