مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا

مجھ میں بھڑکا ہے جو بے وجہ الاؤ تو ہٹا
میرے مولامرے سینے سے دباؤ تو ہٹا

تُو بھلے آ میرے حلقے میں مگر قبل اس کے
مال و دولت کی طرف اپنا جھُکاؤ تو ہٹا

امن کی میز پہ بھی بیٹھ ہی جائیں گے مگر
اس سے پہلے یہ جلاؤ، یہ گھراؤ تو ہٹا

درد بھی ایسا ہے چالاک کہ کچھ مت پوچھو
اک ذرا نام ترا اس کو بتاؤ تو ہٹا

تُو تو پتھر میں عطا کرتا ہے روٹی روزی
اپنے دریاؤں کا اک سمت بہاؤ تو ہٹا

پھر مرے دل کے اُجڑنے پہ سزا دے مجھ کو
چاند کے ماتھے سے ویرانی کا گھاؤ تو ہٹا

ورنہ اس روز ترا درد مجھے لے جاتا
وہ تو میں زور سے بولاکہ بچاؤ تو ہٹا

فرحت عباس شاہ

 

 

موضوعات