رہنے لگی وہ زلفِ گرہ گیر سامنے

رہنے لگی وہ زلفِ گرہ گیر سامنے
ہر وقت اب تو ہے یہی زنجیر سامنے

آتے ہیں خیر سے وہ نظر اب کبھی کبھی
آنے لگی ہے خواب کی تعبیر سامنے

ہو جائے گا مُحاسَبہ دشمن کا خود بخود
آ جائیں گے فریب کے سب تیر سامنے

اے دل ! ذرا سنبھل کے اُٹھانا اُدھر قدم
وہ دیکھ ! وہ ہے زلف کی زنجیر سامنے

مَبنی منافقت پہ ہے یاروں کا یہ چلن
تحقیر میری بعد میں ، توقیر سامنے

تدبیر سے بدل نہیں سکتے مقدَّارت
ہو گا وہی ، جو لائے گی تقدیر سامنے

دیوانہ تو بہار میں صحرا کو چل دیا
ٹُوٹی پڑی ہوئی ہے وہ زنجیر سامنے

کیا لکھ دیا ہے میں نے کہ تم ہو گئے ہو خفا
لاؤ تو اک ذرا مری تحریر سامنے

ہنس کر نصؔیر سے بھی تو کچھ گفتگو کریں
بیٹھا ہوا ہے آپ کا دِل گیر سامنے

پیر سید نصیرالدین نصیر گیلانیؒ