دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں

دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں

جانتا ہوں کہ سرابوں میں گھرا ہوں یارو
دوڑ پڑتا ہوں مگر پھر بھی کہ پانی تو نہیں

جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں

کتنے ہی درد بہانے سے مرے پاس آکر
دیکھتے ہیں کہ مری شام سہانی تو نہیں

بچھ گئی ہے تیرے ماتم کو جو اب قسمت سے
ہم نے یہ صف دلِ صحرا سے اُٹھانی تو نہیں

عشق اور درد سے بھر دی ہیں کتابیں ہم نے
یہ جو سب کچھ ہے مری جان زبانی تو نہیں

یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مُجھ سے فرحت
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

فرحت عباس شاہ

موضوعات