داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ چھوتھی قسط

ساتویں لڑکی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

صلیبیوں کے بحری بیڑے اور افواج کو بحیرئہ روم میں غرق کرکے صلا ح الدین ایوبی ابھی مصر کے ساحلی علاقے میں ہی موجود تھا ۔ سا ت دن گزر گئے تھے ۔ صلیبیوں سے تاوان وصول کیا جا چکا تھا ، مگر بحیرئہ روم میں ابھی تک بچے کھچے بحری جہازوں کو ، کشتیوں کو نگل اور انسانوں کو اُگل رہا تھا۔ صلیبی ملاح اور سپاہ جلتے جہازوں سے سمندر میں کود گئے تھے ۔ دور سمندر کے وسط میں سات روز بعد بھی چند ایک جہازوں کے بادبان پھڑپھڑاتے نظر آتے تھے ۔ ان میں کو ئی انسان نہیں تھا ۔ پھٹے ہوئے بادبانوں نے جہازوں کو سمندر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔ صلا ح الدین ایوبی نے اِن کی تلاشی کیلئے کشتیاں روانہ کر دی تھیں اور ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی جہار یا کشتی کام کی ہو تو وہ رسوں سے گھسیٹ لائیں اور جو اس قابل نہ ہوں، اِن میں سے سامان اور کام کی دیگر چیزیں نکال لائیں ۔ کشتیاں چلی گئی تھیں اور جہازوں سے سامان لا یا جا رہا تھا۔ ان میں زیادہ تر اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان تھا یا لاشیں ۔

سمندر میں لاشوں کا یہ عالم تھا کہ لہریں نہیں اُٹھا اُٹھا کر ساحل پر پٹخ رہی تھیں ۔ ان میں کچھ تو جلی ہوئی تھیں اور کچھ مچھلیوں کی کھائی ہوئی۔ بہت سی ایسی تھیں جن میں تیر پیوست تھے۔ صلا ح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے تیروں، نیزوں ، تلواروں اور دیگر اسلحہ کا معائنہ بڑی غور سے کیا تھا اور انہیں اپنے اسلحہ کے ساتھ رکھ کر مضبوطی اور مار کامقابلہ کیا تھا زندہ لوگ بھی تختوں اور ٹوٹی ہوئی کشتیوں پر تیرتے ابھی سمندر سے باہر آرہے تھے ۔ ان بھوکے ، پیاسے ، تھکے اور ہارے ہوئے لوگوں کو لہریں جہاں کہیں ساحل پر لا پھینکتی تھیں ، وہ ہیں نڈھال ہو کر گر پڑتے اور مسلمان انہیں پکڑ لاتے تھے ۔ ساحل کی میلوں لمبائی میں یہی عالم تھا ۔ صلا ح الدین ایوبی نے اپنی سپاہ کو مصر کے سارے ساحل پر پھیلا دیا تھا اور انتظام کیا تھا کہ جہاں بھی کوئی قیدی سمندر سے نکلے ، اسے وہیں خشک کپڑے اورخوراک دی جائے اور جو زخمی ہوں ان کی مرہم پٹی بھی وہیں کی جائے ۔ اس اہتمام کے بعد قیدیوں کو ایک جگہ جمعہ کیا جا رہا تھا ۔

صلا ح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ساحلی علاقے میں گھوم پھر رہا تھا ۔ وہ اپنے خیمے سے کوئی دو میل دور نکل گیا تھا ۔ آگے چٹانی علاقہ آ گیا ۔ چٹانوں کی ایک سمت اور عقت میں صحرا تھا ۔ یہ سر سبز صحرا تھا جہاں کھجور کے علاوہ دوسری اقسام کے صحرائی درخت اور جھاڑیاں تھیں ۔ صلا ح الدین ایوبی گھوڑے سے اُترا اور پیدل چٹانوں کے دامن میں چل پڑا ۔ محافظ دستے کے چار سوار اس کے ساتھ تھے ۔ اس نے اپنا گھوڑا محافظوں کے حوالے کیا اور انہیں وہیں ٹھہرنے کو کہا۔اس کے ساتھ تین سالار تھے ۔ ان میں اس کا رفیقِ خاص بہائو الدین شداد بھی تھا ۔وہ اس معرکے سے ایک ہی روز پہلے عرب سے اس کے پاس آیا تھا ۔انہوں نے بھی گھوڑے محافظوں کے حوالے کیے اور سلطان کے ساتھ ساتھ چلنے لگے ۔ موسم سرد تھا ۔ سمندر میں تلاطم نہیں تھا ۔ لہریں آتی تھیں اور چٹانوں سے دور ہی سے واپس چلی جاتی تھیں ۔ ایوبی ٹہلتے ٹہلتے دُور نکل گیا اور محافظ دستے کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ اس کے آگے ، پیچھے اور بائیں طرف اونچی نیچی چٹانیں اور دائیں طرف ساحل کی ریت تھی۔ وہ ایک چٹان پر کھڑا ہوگیا ، جس کی بلندی دو اڑھائی گز تھی ۔ اس نے بحیرئہ روم کی طرف دیکھا ۔ یو ں معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر کی نیلاہٹ سلطان ایوبی کی آنکھوں میں اُتر آئی ہو ۔ اس کے چہرے پر فتح و نصرت کے مسرت تھی اور اس کی گردن کچھ زیادہ ہی تن گئی تھی ۔

اس نے ناک سکیڑ کر کپڑا ناک پر رکھ لیا ۔ بولا ” کس قدر تغفن ہے ” …………اس کی اور سالاروں کی نظریں ساحل پر گھومنے لگیں ۔ پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دیں۔پھر ہلکی ہلکی چیخیں اور سیٹیاں سنائی دیں ۔ اوپر سے تین چار گدھ پر پھیلائے اُترتے دکھا ئی دئیے اور چٹان کی اوٹ میں جدھر ساحل تھا ، اُترتے گئے ۔ ایوبی نے کہا ………………..¬ ” لاشیں ہیں” ……………. اُدھر گیا تو پندرہ بیس گز دور گدھ تین لاشوں کو کھا رہے تھے ، ایک گدھ ایک انسانی کھوپڑی پنجوں میں دبوچ کر اُڑا اور جب فضا میں چکر کاٹا تو کھوپڑی اس کے پنجوں سے چھوٹ گئی اور صلا ح الدین ایوبی کے سامنے آن گری۔ کھوپڑی کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے صلا ح الدین ایوبی کو دیکھ رہی ہوں ۔ چہرے اور بالوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی صلیبی کی کھوپڑی ہے۔ ایوبی کچھ دیر کھوپڑی کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا اور کہا …………… ”ان لوگوں کو کھوپڑی مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے بہتر ہیں ۔ یہ ان کھوپڑیوں کا کمال ہے کہ ہماری خلافت عورت اور شراب کی ندر ہوتی جا رہی ہے ”۔

”صلیبی چوہوں کی طرح سلطنتِ اسلامیہ کو ہڑپ کرتے چلے جارہے ہیں ” ۔ ایک سالا ر نے کہا ۔

” اور ہمارے بادشاہ انہیں جزیہ دے رہے ہیں ” ………..شداد نے کہا ………. ” فلسطین پر صلیبی قابض ہیں ۔

سلطان! کیا ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ ہم فلسطین سے انہیں نکا ل سکیں گے ”۔

” خدا کی ذات سے مایوس نہ ہو شداد ” ………… صلا ح الدین ایوبی نے کہا ۔

” ہم اپنے بھائیوں کی ذات سے مایوس ہو چکے ہیں ” ………… ایک اور سالار بولا ۔

” تم ٹھیک کہتے ہو ” ……… سلطان ایوبی نے کہا ……… ” حملہ جو باہر سے ہوتا ہے ، اسے ہم روک سکتے ہیں ۔ کیا تم میں سے کوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ کفار کے اتنے بڑے بحری بیڑے کو تم اتنی تھوڑی طاقت سے نذرِ آتش کرکے ڈبو سکو گے ؟تم نے شاید اندازہ نہیں کیا کہ اس بیڑے میں جو لشکر آرہا تھا ، وہ سارے مصر پر مکھیوں کی طرح چھا جاتا ۔ اللہ نے ہمیں ہمت دی اور ہم نے کھلے میدان میں نہیں بلکہ صرف گھات لگا کر اس لشکر کو سمندر کی تہہ میں گم کر دیا ، مگر میرے دوستو ! حملہ جو اندر سے ہوتا ہے اسے تم اتنی آسانی سے نہیں روک سکتے ۔ جب تمہارا اپنا بھائی تم پر وار کرے گا تو تم پہلے یہ سوچو گے کہ کیا تم پر واقعی بھائی نے وار کیاہے ؟تمہارے بازو میں اسکے خلاف تلوار اُٹھانے کی طاقت نہیں ہوگی ۔ اگر تلوار اُٹھائو گے اور اپنے بھائی سے تیغ آزمائی کرو گے تو دشمن موقع غنیمت جان کر دونوں کو ختم کر دے گا ”۔

وہ آہستہ آہستہ ساحل پر چٹان کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا ۔ چلتے چلتے رُک گیا۔ جھک کر ریت سے کچھ اُٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر سب کو دکھایا ۔ یہ ہتھیلی جتنی بڑی صلیب تھی جو سیاہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی ۔ اُس کے ساتھ ایک مضبوط دھاگہ تھا ۔ اُس نے ان لاشوں کے بکھرے ہوئے اعضاء کو دیکھا ، جنہیں گدھ کھا رہے تھے ۔ پھر کھوپڑی کو دیکھا جو گدھ کے پنجوں سے اُس کے سامنے گری تھی ۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا کھوپڑ ی تک گیا ۔ تین گدھ کھوپڑی کی ملکیت پر لڑ رہے تھے ۔ صلا ح الدین ایوبی کو دیکھ کر پرے چلے گئے ۔ سلطان ایوبی نے صلیب کھوپڑی پر رکھ دی اور دوڑ کر اپنے سالاروں سے جا ملا ۔ کہنے لگا ……..” میں نے صلیبیوں کے ایک قیدی افسر سے باتیں کی تھیں۔ اس کے گلے میں بھی صلیب تھی ۔ اس نے بتایا کہ صلیبی لشکر میں جو بھی بھرتی ہوتا ہے اس سے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا جاتا ہے کہ وہ صلیب کے نام پر جان کی بازی لگا کر لڑے گا اور وہ روئے زمین سے آخری مسلمان کو بھی ختم کر کے دم لے گا ۔ اس حلف کے بعد ہر لشکری کے گلے میں صلیب لٹکا دی جاتی ہے ۔ یہ صلیب مجھے ریت سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی تھی ۔ میں نے اس کھوپڑی پر رکھ دی ہے تا کہ اس کی روح صلیب کے بغیر نہ رہے ۔ اس نے صلیب کی خاطر جان دی ہے۔ سپاہی کو سپاہی کے حلف کا احترام کرنا چاہیے ”۔

”سلطان !” …… شداد نے کہا …… ” یہ تو آ پ کو معلوم ہے کہ صلیبی یروشلم کے مسلمان باشندوں کا کتنا کچھ احترام کررہے ہیں ۔ وہاں سے مسلمان بیوی بچوں کو ساتھ لے کر بھاگ رہے ہیں۔ہماری بیٹیوں کی آبرو لوٹی جا رہی ہے ۔ ہمارے قیدیوں کو انہوں نے ابھی تک نہیں چھوڑا ۔ مسلمان جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کیا ہم ان عیسائیوں سے انتقام نہیں لیں گے ؟

”انتقام نہیں ”………… صلاح الدین ایوبی نے کہا……… ” ہم فلسطین لیں گے مگر فلسطین کے راستے میں ہمارے اپنے حکمران حائل ہیں ”….. وہ چلتے چلتے رُک گیا اور بولا ……. ” کفار نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر سلطنتِ اسلامیہ کے خاتمے کا حلف اُٹھایا ہے ۔ میں نے اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اور ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر قسم کھائی ہے کہ فلسطین ضرور لوں گا اور سلطنتِ اسلامیہ کی سرحدیں اُفق تک لے جائوں گا مگر میرے رفیقو! مجھے اپنی تاریخ کا مستقبل کچھ روشن نظر نہیں آتا ۔ ایک وقت تھا کہ عیسائی بادشاہ تھے اورہم جنگجو۔ اب ہمارے بزرگ بادشاہ بنتے جارہے ہیں اور عیسائی جنگجو۔ دونوں قوموں کا رحجان دیکھ کر میں کہہ رہا ہوں کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان بادشاہ بن جائیں گے ، مگر عیسائی ان پرحکومت کریں گے ۔ مسلمان سی میں بد مست رہیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں ، آزاد ہیں مگر وہ آزاد نہیں ہوں گے ۔ میں فلسطین لے لوں گا مگر مسلمانوں کا رحجان بتا رہا ہے کہ وہ فلسطین گنوا بیٹھیں گے ۔ عیسائیوں کی کھوپڑی بڑی تیز ہے ….. پچاس ہزار سوڈانی لشکر کون پال رہا تھا ! ہماری خلافت اپنی آستین میں ناجی نام کا سانپ پالتی رہی ہے ۔ میں پہلا امیر مصر ہوں جس نے دیکھا ہے کہ یہ لشکر ہمارے لیے نہ صرف بیکار ہے ، بلکہ خطرناک بھی ہے ۔ اگر ناجی جاخط پکڑا نہ جاتا تو آج ہم سب اس لشکر کے ہاتھوں مارے جا چکے ہوتے یااس کے قیدی ہوتے ……..”

اچانک ہلکا سا زناٹہ سنائی دیا اور ایک تیر صلاح الدین ایوبی کے دونوں پائوں کے درمیان ریت میں لگا ۔جدھر سے تیر آیاتھا ، اِس طرف سلطان ایوبی کی پیٹھ تھی………

.سالاروں میں سے بھی کوئی اُدھر نہیں دیکھ رہا تھا ۔ سب نے بِدک کر اس طرف دیکھا ، جدھر سے تیر آیاتھا ۔ اُدھر نوکیلی چٹانیں تھیں ۔تینوں سالار اور صلاح الدین ایوبی دوڑ کر ایک ایسی چٹان کی اوٹ میں ہوگئے جو دیوار کی طرح عمودی تھی ۔ انہیں توقع تھی کہ اور بھی تیر آئیں گے ۔ تیروںکے سامنے میدان میں کھڑے رہنا کوئی بہادری نہیں تھی ۔ شداد نے منہ میں انگلیاں رکھ کر زور سے سیٹی بجائی ۔ محافظ دستہ پابر کاب تھا ۔ان کے گھوڑوں کے سرپٹ ٹاپو سنائی دئیے ۔ اس کے ساتھ ہی تینوں سالار اس طرف دوڑ پڑے جس طرف سے تیر آیاتھا۔ وہ بکھر کر چٹانوں پر چڑھ گئے ۔ چٹانیں زیادہ اونچی نہیں تھیں ۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان کے پیچھے گیا۔ ایک سالار نے اسے دیکھ لیا اور کہا ……. ” سلطان ! آپ سامنے نہ آئیں ” مگر سلطان ایوبی رُکا نہیں ۔

محافظ پہنچ گئے ۔ صلاح الدین ایوبی نے انہیں کہا ……….. ”ہمارے گھوڑے یہیں چھوڑدو اور چٹانوں کے پیچھے جائو ۔اُدھر سے ایک تیر آیا ہے، جو کوئی نظر آئے اسے پکڑلائو ”۔

سلطان ایوبی چٹان کے اوپر گیاتو اُسے انچی نیچی چٹانیں دُور دُور تک پھیلی ہوئی نظر آئیں ۔ وہ اپنے سالاروں کو ساتھ لیے پچھلی طرف اُتر گیا اور ہر طرف گھوم پھر کر اور چٹانوں پر چڑھ کر دیکھا ۔ کسی انسان کا نشان تک نظر نہ آیا ۔ محافظ چٹانی علاقے کے اندر ، اوپر اور اِدھر اُدھر گھوڑے دوڑارہے تھے ۔ صلاح الدین ایوبی نیچے اُتر کے وہاں گیا جہاں ریت میں تیر گڑھا ہو تھا ۔ اس نے اپنے رفیقوں کو بلایا اور تیر پر ہاتھ مارا، تیر گر پڑا ۔ سلطان ایوبی نے کہا …….. ” دُور سے آیا ہے اس لیے پائوں میں لگا ہے ، ورنہ گردن یا پیٹھ میں لگتا ۔ ریت میں بھی زیادہ نہیں اُترا ” … اس نے تیر اُٹھا کر دیکھا اور کہا … ” صلیبیوں کا ہے ، حشیشین کا نہیں ”۔

”سلطان کی جان خطرے میں ہے ” ……… ایک سالا ر نے کہا ۔

” اور ہمیشہ خطرے میں رہے گی ”………… صلاح الدین ایوبی نے ہنس کر کہا …… ..”میں بحیرئہ روم میں کفار کی وہ کشتیاں دیکھنے نکلا تھا جو ملاحوں کے بغیر ڈول رہی ہیں ، مگر میرے عزیز دوستو! کبھی نہ سمجھنا کہ صلیبیوں کی کشتی ڈول رہی ہے ، وہ پھر آئیں گے ۔ گھٹائوں کی طرح گرجتے آئیں گے اور برسیں گے بھی ، لیکن وہ زمین کے نیجے سے اور پیٹھ کے پیچھے سے بھی وار کریں گے ۔ ہمیں اب صلیبیوں سے ایسی جنگ لڑنی ہے جو صرف فوجیں نہیں لڑیں گی ۔ میں جنگی تربیت میں ایک اضافہ کر رہا ہوں ۔ یہ فنِ حرب و ضرب کا نیا باب ہے ۔ اسے جاسوسوں کی جنگ کہتے ہیں ”۔

سلطان صلاح الدین ایوبی تیر ہاتھ میں لیے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور اپنے کیمپ کی طرف چل پڑا ۔ اس کے سالار بھی گھوڑوں پر سوار ہوگئے ۔ ان میں سے ایک نے سلطان کے دائیں طرف اپنا گھوڑا کر دیا ، ایک نے بائیں کو اور ایک نے اپنا گھوڑا اس کے با لکل پیچھے اور قریب رکھا ، تا کہ کسی بھی طرف سے تیر آئے تو صلاح الدین ایوبی تک نہ پہنچ سکے

صلاح الدین ایوبی نے اس تیر پر ذرا سی بھی پریشانی کا اظہار نہ کیا جو کسی نے اسے قتل کرنے کیلئے چلایا تھا ۔اپنے رفیق سالاروں کو اپنے خیمے میں بٹھائے ہوئے وہ بتا رہا تھا کہ جاسوس اورشب خون مارنے والے دستے کس قدر نقصان کرتے ہیں ۔ وہ کہہ رہا تھا ………. ”میں علی بن سفیان کو ایک ہدایت دے چکا ہوں ، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ، کیونکہ فوراً ہی مجھے اس حملے کی خبر ملی اور عمل درآمد دھرا رہ گیا ۔ تم سب فوری طور پر یوں کرو کہ اپنے سپاہیوں اور ان کے عہدے داروں میں سے ایسے افراد منتخب کرو جو دماغی اور جسمانی ًلحاظ سے مضبوط اور صحت مند ہوں ۔ باریک بین ، دور اندیش، قوت فیصلہ رکھنے والے جانباز قسم کے آدمی چنو۔ میں نے علی کو ایسے آدمیوں کی جو صفات بتائیں تھیں وہ سب سن لو ۔ اُن میں اونٹ کی مانند زیادہ سے زیادہ دِن بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی قوت ہو ۔ چیتے کی طرح جھپٹنا جانتے ہوں ، عقاب کی طرح ان کی نظریں تیز ہوں ، خرگوش اور ہرن کی طرح دوڑ سکتے ہوں۔ مسلح دشمن سے ہتھیار کے بغیر بھی لڑ سکیں ۔ ان میں شراب اور کسی دوسری نشہ آور چیز کی عادت نہ ہو۔ کسی لالچ میں نہ آئیں ۔ عورت کتنی ہی حسین مل جائے اور زر و جواہرات کے انباران کے قدموں میں لگا دئیے جائیں ، وہ نظر اپنے فرض پر رکھیں ………
”اپنے دوستوں اور ان کے کمان داروں کو خاص طور پر ذہن نشین کرایں کہ عیسائی بڑی ہی خوب صورت اور جوان لڑکیوں کو جاسوسی کے لیے اور فوجوں میں بے اطمینانی پھیلانے کے لیے اور عسکریوں کو جذبے کے لحاظ سے بیکار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ میں نے مسلمانوں میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ عورت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ میں مسلمان عورت کو اس مقاصد کے لیے دشمن کے علاقے میں کبھی نہیں بھیجوں گا ۔ہم عصمتوں کے محافظ ہیں ، عصمت کو ہتھیار نہیں بنائیں گے ۔ علی بن سفیان نے چند ایک لڑکیاں رکھی ہوئی ہیں ، لیکن وہ مسلمان نہیں اور وہ عیسائی بھی نہیں ،مگر میں عورت کاقائل نہیں ”۔

محافظ دستے کاکمانڈر خیمے میں آیا اور اطلاع دی کہ محافظ کچھ لڑکیوں اور آدمیوں کے ساتھ لائے ہیں ۔ سلطان ایوبی باہر نکلا ۔ اس کے تینوں سالار بھی تھے ۔ باہر پانچ آدمی کھڑے تھے ، جن کے لمبے چغے ، دستاریں اور ڈیل ڈول بتا رہی تھی کہ تاجر ہیں اور سفر میں ہیں ۔ان کے ساتھ سات لڑکیاں تھیں ۔ ساتوں جوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوب صورت ۔ ان محافظوں میں سے ایک نے جو سلطان پر تیر چلانے والے کی تلاش میں گئے تھے بتایا تھا کہ انہوں نے تمام علاقہ چھان مارا ، انہیں کوئی آدمی نظر نہیں آیا ۔ دور پیچھے گئے تو یہ لوگ تین اونٹوں کے ساتھ ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے ۔

” کیا ان کی تلاشی لی ہے؟” …………. ایک سالا ر نے پوچھا ۔

” لی ہے ” ……….. محافظ نے جواب دیا …………. ” یہ کہتے ہیں کہ تاجر ہیں ۔ ان کا سارا سامان کھلواکر دیکھا ہے ۔ جامہ تلاشی بھی لی ہے ۔ ان کے پاس ان خنجروں کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں ” ……… اس نے پانچ خنجر سلطان ایوبی کے قدموں میں رکھ دئیے ۔

” ہم مراکش کے تاجر ہیں ” …………… ایک تاجرنے کہا ……….. ” سکندریہ تک جائیں گے ۔ دو روز گزرے ہمارا قیام یہاں سے دس کوس پیچھے تھا ۔ پرسوں شام یہ لڑکیاں ہمارے پاس آئیں ۔ ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سِسلی کی رہنے والی ہیں ۔ انہیں عیسائی فوج کاایک کماندار گھروں سے پکڑ کر ساتھ لے آیا اور ایک بحری جہاز میں جا سوا ر کیا ۔ ان کے ماں باپ غریب ہیں ۔یہ کہتی ہیں کہ بے شمار جہاز اور کشتیاں چل پڑیں ۔ لڑکیوں والے جہاز میں چند اور کماندار قسم کے آدمی تھے اور اُن کی فوج بھی تھی ۔ وہ سب ان لڑکیوں کے ساتھ شراب پی کر عیش و عشرت کرتے رہے ۔ اس ساحل کے قریب آئے تو جہازوں پر آگ کے گولے گرنے لگے۔ تمام لوگ جہازوں سے سمندر میں کودنے لگے ۔ ان لڑکیوں کو انہوں نے ایک کشتی میں بٹھا کر جہاز سے سمندر میں اُتار دیا ۔ یہ بتاتی ہیں کہ انہیں کشتی چلانی نہیں آتی تھی ۔ کشتی سمندر میں ڈولتی اور بھٹکتی رہی ۔ پھر ایک روز خود ہی ساحل سے آلگی ۔ ہمارا قیام ساحل کے ساتھ تھا ۔ یہ ہمارے پاس آگئیں ۔ بہت ہی بُری حالت میں تھیں ۔ ہم نے انہیں پناہ میں لے لیا ۔ انہیں ہم دھتکار تو نہیں سکتے تھے ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کا کیا کریں ۔ پچھلے پڑائو سے یہاں تک انہیں ساتھ لائے ہیں ۔ یہ سوار آگئے اور ہمارے سمامان کی تلاشی لینے لگے ۔ ہم نے ان سے تلاشی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی امیرِ مصر کا حکم ہے ۔ ہم نے ان کی منت سماجت کی کہ ہمیں اپنے سلطان کے حضور لے چلو ۔ ہم عرض کریں گے کہ ان لڑکیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں ۔ ہم سفر میں ہیں ۔ انہیں کہا ں کہاں لیے پھیریں گے ”

لڑکیوں سے پوچھا تو وہ سِسلی کی زبان بول رہی تھیں ۔ وہ ڈری ڈری سی لگتی تھیں ۔ ان میں سے دو تین اکٹھی ہی بولنے لگیں ۔ صلاح الدین ایوبی نے تاجروں سے پوچھا کہ ان کی زبان کون سمجھتاہے ؟ ایک نے بتایا کہ صرف میں سمجھتا ہوں ۔ یہ التجا کر رہی ہے کہ سلطان انہیں پناہ میں لے لے ۔ کہتی ہیں کہ ہم تاجروں کے قافلے کے ساتھ نہیں جائیں گی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ راستے میں ڈاکو ہمیں اُٹھا کر لے جائیں ۔ اِدھر جنگ بھی ہو رہی ہے ۔ ہر طرف عیسائیوں اور مسلمانوں کے سپاہی بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں ۔ ہمیں سپاہیوں سے بہت ڈر آتا ہے ۔ ہمیں جب گھروںسے اُٹھایا گیا تھا تو ہم سب کنواری تھیں ۔ ان فوجیوں نے بحری جہاز میں ہمیں طوائفیں بنائے رکھا ہے ۔

ایک لڑکی نے کچھ کہا تو اس کی زبان جاننے والے تاجر نے سلطان ایوبی سے کہا ……..” یہ کہتی ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے بادشاہ تک پہنچا دو ۔ ہو سکتا ہے اس کے دل میں رحم آجائے”۔

ایک اور لڑکی بول پڑی ۔ اس کی آواز رندھیائی ہوئی تھی۔ تاجر نے کہا…….” یہ کہتی ہے کہ ہمیں عیسائی سپاہیوں کے حوالے نہ کیا جائے ۔ میں مسلمان ہو جائوں گی ، بشرطیکہ کوئی اچھی حیثیت والا مسلمان میرے ساتھ شادی کر لے ” ۔

دو تین لڑکیاں پیچھے کھڑی منہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ ان کے چہروں پر گھبراہٹ تھی ۔ بات کرتے شرماتی یا ڈرتی تھیں۔

صلاح الدین ایوبی نے تاجر سے کہا …………” انہیں کہو کہ یہ عیسائیوں کے پاس نہیں جانا چاہتیں ۔ ہم انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ یہ لڑکی جو کہہ رہی ہے کہ مسلمان ہو جائے گی ، بشرطیکہ کوئی مسلمان اس کے ساتھ شادی کر لے ، اسے کہو کہ میں اس کی پیشکش قبول نہیں کر سکتا ، یہ خوف اور مجبوری کے عالم میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہے ۔ انہیں بتائو کہ انہیں مجھ پر اعتماد ہے تو میں انہیں اسلام کی بیٹیوں کی طرح پناہ میں لیتا ہوں ۔ اپنے دارالحکومت میں جا کر یہ انتظام کردوں گا کہ انہیں عیسائی راہبوں یا کسی پادری کے پاس بجھوادوں گا ۔

ادری یروشلم میں ہوں گے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب عیسائی قیدیوں کو آزادکیا جائے گا تو میں کوشش کروں گا کہ ان کی شادیاں قابلِ اعتماد اور اچھی حیثیت کے قیدیوں کے ساتھ کردوں۔ انہیں یہ بھی بتادو کہ کسی مسلمان کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ انہیں اجازت ہوگی کہ کسی مسلمان سے ملیں ۔ ان کی ضروریات اور عزت کا خیال رکھا جائے گا”۔

تاجرنے لڑکیوں کو ان کی زبان میں سلطان ایوبی کی ساری باتیں بتائیں تو ان کے چہروں پر رونق آگئی۔ وہ ان شرائط پر رضا مند ہوگئیں۔ تاجر شکریہ ادا کر کے چلے گئے ۔ صلاح الدین ایوبی نے لڑکیوں کے لیے الگ خیمہ لگانے اور خیمے کے باہر ہر وقت ایک سنتری موجود رہنے کا حکم دیا ۔ وہ خیمے کی جگہ بتانے ہی لگا تھا کہ چھ صلیبی سلطان ایوبی کے سامنے لائے گئے ۔ وہ بہت ہی بُر ی حالت میں تھے ۔ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے ۔ کپڑوں پرخون بھی تھا ، ریت بھی۔ ان کے چہرے لاشوں کی مانند تھے ۔ ان کے متعلق بتایا گیا کہ ڈیڑھ دومیل دورساحل پر بے سُدھ پڑے تھے ۔ وہ ٹوٹی ہوئی کشتی پر تیر رہے تھے ۔ ایک دن کشتی پانی بھرجانے سے ڈوب گئی ۔ یہ سب تیر کر ساحل تک پہنچے ۔ کشتی میں بائیس آدمی سوار ہوئے تھے ۔ صرف یہ چھ زندہ بچے ۔ ان سے چلا نہیں جاتا تھا ۔ یہ صلیبی لشکرکے سپاہی تھے ۔ وہ سب ڈھڑام سے بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک چہرے مہرے سے لگتا تھا کہ معمولی سپاہی نہیں ہے ، وہ کراہ رہا تھا ۔ اس کے کپڑوں پر خون کا ایک دھبہ بھی نہ تھا، مگر زخمیوں سے زیادہ تکلیف میں معلوم ہوتا تھا۔ اس نے ساتوں لڑکیوں کو غور سے دیکھا اور پھر کراہنے لگا ۔

یہ صلاح الدین ایوبی کا حکم تھا کہ ہر ایک قیدی اسے دکھایا جائے ، چونکہ قیدی ابھی تک سمندر سے بچ بچ کر نکل رہے تھے ، اس لیے ہر ایک قیدی سلطان ایوبی کے سامنے لایا جا تا تھا۔اس نے قیدیوں کو بھی دیکھا۔ کسی سے کوئی بات نہ کی البتہ اس قیدی کو جو سب سے زیادہ کراہ رہاتھا اور جس کے جسم پر کوئی زخم بھی نہ تھا ، سلطان نے غور سے دیکھا اور آہستہ سے اپنے سالاروں سے کہا ………… ” علی بن سفیان ابھی تک نہیں آیا ۔ ان تمام قیدیوں سے جو اب تک ہمارے پاس آچکے ہیں ، بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ ان سے معلومات لینی ہیں ”۔اس نے اس قیدی کی طرف دیکھ کرکہا …….. ” یہ آدمی کماندار معلوم ہوتا ہے ۔ اسے نظر میں رکھنا اور جب بھی علی بن سفیان آئے تو اسے کہنا کہ اس سے تفصیلی پوچھ گچھ کرے۔ معلوم ہوتا ہے اسے اندر کی چوٹیں آئی ہیں ۔شاید پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ……….. انہیں فوراً زخمی قیدیوں کے خیموں میں پہنچا دو ۔ انہیں کھلائو اور ان کی مرہم پٹی کرو ”۔

قیدیوں کو اس طرف لے جایا گیا جس طرف زخمی قیدیوں کے خیمے تھے ۔ لڑکیاں انہیں جاتا دیکھتی رہیں، پھر ان لڑکیوں کو بھی لے گئے ۔ فوج کے خیموں سے تھوڑی دور لڑکیوں کے لیے خیمہ نصب کیا جارہاتھا، وہاں سے کو ئی سو قدم دور زخمی قیدیوں کے خیمے تھے، وہاں بھی ایک خیمہ گاڑ ا جارہا تھا اور چھ نئے زخمی قیدی زمین پر لیٹے ہوئے تھے ۔ لڑکیاں ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ دونوں خیمے کھڑے ہو گئے۔ لڑکیاں اپنے خیمے میں چلی گئیں اور زخمیوں کے اُن کے اپنے خیمے میں لے گئے ۔ ایک سنتری لڑکیوں کے خیمے کے باہر کھڑا ہو گیا ۔ لڑکیوں کے لیے کھانا آگیا جو انہوں نے کھا لیا ۔ پھر ایک لڑکی خیمے سے نکل کر اس خیمے کی طرف دیکھنے لگی جس میں نئے چھ زخمی قیدیوں کے لے گئے تھے ۔ اس کے چہرے پر اب گھبراہٹ اورخوف کا کوئی تاثر نہیں تھا ۔سنتری نے اسے دیکھا اور اسے نے سنتری کو دیکھا ۔ لڑکی نے مُسکرا کر اشارہ کیا کہ وہ زخمیوں کے خیمے کی طرف جانا چاہتی ہے ۔ سنتری نے سر ہلا کر اسے روک دیا ۔ لڑکیوں کو خیمے سے دُور جانے یا کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔لڑکیوں اور چھ زخمیوں کے خیموں کے درمیان بہت سے درخت تھے ۔ بائیں طرف مٹی کا ایک ٹیلا تھا جس پر جھاڑیا ں تھیں ۔

سورج غروب ہوگیا ۔ پھر رات تاریک ہونے لگی ۔ کیمپ کے غل غپاڑے پر نیند غالب آنے لگی اور پھر زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں رات کے سکوت میں کچھ زیادہ ہی صاف سنائی دینے لگیں۔ دور پرے بحیرئہ روم کا شور دبی دبی مسلسل گونج کی طرح سنائی دے رہا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی کے اس جنگی کیمپ میں جاگنے والوں میں چند ایک سنتری تھے یا وہ زخمی قیدی جنہیں زخم سونے دیتے تھے یا صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے اندر دِن کا سماں تھا ، وہاں کسی کو نیند نہیں آئی تھی ۔ سلطان ایوبی کے تین سالار اس کے پاس بیٹھے تھے اور باہر محافظ دستہ بیدار تھا۔

سلطان ایوبی نے ایک بار پھر کہا ……….” علی بن سفیان ابھی تک نہیں آیا ” ……….. اس کے لہجے میں تشویش تھی ۔ اس نے کہا ……….” اس کا قاصد بھی نہیں آیا”۔

”اگر کوئی گڑبڑ ہوتی تو اطلاع آچکی ہوتی ” ………. ایک سالار نے کہا …………. ” معلوم ہوتا ہے وہاں سب ٹھیک ہے ”۔

”اُمید تو یہی رکھنی چاہیے ”…………. صلاح الدین ایوبی نے کہا …….. ” لیکن پچاس ہزار کے لشکر نے بغاوت کردی تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ۔ وہاں نفری ڈیڑھ ہزار سوار اور دو ہزار سات سو پیادہ ہیں ۔ان کے مقابلے میں سوڈانی بہتر اور تجربہ کار عسکری ہیں اور تعداد میں بہت زیادہ ”۔

” ناجی اور اس کے سازشی ٹولے کے خاتمے کے بعد بغاوت ممکن نظر نہیں آتی ”۔ ایک اور سالار نے کہا ۔ ” قیادت کے بغیر سپاہی بغاوت نہیں کریں گے ”۔

”پیش بندی ضروری ہے ” ………… صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ” لیکن علی آجائے تو پتہ چلے گا کہ پیش بندی کس قسم کی کی جائے ”۔
صلیبیوں کو روکنے کیلئے تو سلطان ایوبی خود آیا تھا لیکن دارالحکومت میں سوڈانی فوج کی بغاوت کا خطرہ تھا۔ علی بن سفیان کو سلطان ایوبی نے وہیں چھوڑ دیا تھا ، تا کہ وہ سوڈانی لشکر پر نظر رکھے اور بغاوت کو اپنے خصوصی فن سے دبانے کی کوشش کرے ۔اسے اب تک صلاح الدین ایوبی کے پاس آکر وہاں کے احوال و کوائف بتانے تھے مگر وہ نہیں آیاتھا ۔ جس سے سلطان ایوبی بے چین ہوا جارہا تھا ۔

وہ جب اپنے سالاروں کے ساتھ قاہرہ کی صورتِ حال کے متعلق باتیں کر رہا تھا ، اس کا تمام کیمپ گہری نیند سو چکا تھا مگر وہ ساتوں لڑکیاں جاگ رہی تھیں ، جنہیں سلطان ایوبی نے پناہ میں لے لیا تھا۔ ایک بار سنتری نے خیمے کا پردہ اُٹھاکر دیکھا ، اندر دیا جل رہا تھا ۔ پردہ ہٹتے ہی لڑکیاں خراٹے لینے لگیں ۔ سنتری نے دیکھا وہ پوری سات ہیں اور سو رہی ہیں تو اس نے پردہ گرایا اور خیمے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا ۔ خیمے کے پردے کے ساتھ جو لڑکی تھی اس نے نیچے سے پردہ ذرا اوپر اُٹھایا ۔ پردہ آہستہ سے چھوڑکر اس نے ساتھ والی کے کان میں کہا …….’ ‘بیٹھ گیا ہے ”………… ساتھ والی نے اگلی لڑکی کے کا ن میں کہا …….’ ‘بیٹھ گیا ہے ”………… اور اس طرح کانوں کانوں میں یہ اطلاع ساتوں لڑکیوں تک پہنچ گئی کہ سنتری بیٹھ گیا ہے۔ ایک لڑکی جو خیمے کے دوسرے دروازے کے ساتھ تھی آہستہ سے اُٹھ کر بیٹھی اور بستر سے نکل گئی ۔ بستر زمین پر بچھے تھے ۔ اس لیے اوپر لینے والے کمبل اس طرح بستر پر ڈال دئیے جیسے ان کے نیچے لڑکی لیٹی ہوئی ہے ۔

وہ پائوں پر سرکتی خیمے کے دروازے تک گئی ۔ پردہ ہٹایا اور باہر نکل گئی ۔ باقی چھ لڑکیوں نے آہستہ آہستہ خرانے لینے شروع کر دئیے ۔ سنتری کو معلوم تھا کہ یہ سمندر سے بچ کر نکلی ہئی پناہ گزین لڑکیاں ہیں ، کوئی خطرناک قیدی تو نہیں ۔ وہ بیٹھ کر اونگھتا رہا ۔ لڑکی دبے پائوں ایسے رُخ پر ٹیلے کی طرف چلتی گئی جس رُخ سے اس کے اور سنتری کے درمیان خیمہ حائل رہا ۔ٹیلے کے پاس پہنچ کر اس نے اُس خیمیکا رُخ کر لیا جس میں چھ نئے قیدی رکھے گئے تھے ۔ رات تاریک تھی ، وہاں کچھ درخت تھے ۔ سنتری اب اُدھر دیکھتا بھی تو اسے لڑکی نظر نہ آتی ۔ لڑکی بیٹھ گئی اور پائوں سے سرک سرک کر آگے بڑھنے لگی ۔ آگے ریت کی ڈھیریاں سی تھیں ۔ وہ اُن کی اوٹ میں سرکتی ہوئی خیمے کے قریب پہنچ گئی ، مگر وہاں ایک سنتر ٹہل رہا تھا۔ لڑکی ایک ڈھیری کے پاس لیٹ گئی ۔ سنتری اسے سیاہ سائے کی طرح نظر آرہا تھا ۔ وہ اب دو سنتریوں کے درمیان تھی ۔ ایک اس کے اپنے خیمے کا اور دوسرا زخمیوں کے خیمے کا ۔

وہ اب دو سنتریوں کے درمیان تھی ۔ ایک اس کے اپنے خیمے کا اور دوسرا زخمیوں کے خیمے کا ۔ اسے ڈر یہ تھا کہ زخمیوں کا سنتری اس کی طرف آگیا تو وہ پکڑی جائے گی ۔

بہت دیر انتظار کے بعد سنتری دوسرے زخمیوں کی طرف چلا گیا ۔ لڑکی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتی خیمے تک پہنچ گئی اور پر دہ اُٹھا کر اندر چلی گئی ۔ اندر اندھیرا تھا ۔ دو تین زخمی آہستہ آہستہ کراہ رہے تھے ۔ شاید ان میں سے کسی نے خیمے کا پردہ اُٹھتا دیکھ لیا تھا ۔ اس نے نحیف آواز میں پوچھا………. ”کون ہے ”…… لڑکی نے منہ سے ”شی ” کی لمبی آواز نکالی اورسرگوشی میں پوچھا ………….. ”رابن کہاں ہے؟ ”……….. اسے جواب ملا ……….. ”اُدھر سے
تیسرا”………….¬.. لڑکی نے تیسرے آدمی کے پائوں ہلائے تو آواز آئی ”کون ہے ”…… لڑکی نے جواب دیا ………… ”موبی ” ۔

رابن اُٹھ بیٹھا ۔
ہاتھ لمبا کر کے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اسے اپنے بستر میں گھسیٹ لیا ۔ اسے اپنے پاس لٹا کر اوپر کمبل ڈال دیا ۔ بولا ……….” سنتری نہ آجائے ، میرے ساتھ لگی رہو ”……….. اس نے لڑکی کو اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا ………… ” میں اس اتفاق پر حیران ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات ہو گئی ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔ ہم نے بہت بُری شکست کھائی ہے ، لیکن یہ سب دھوکا تھا ”……….. یہ وہی زخمی قیدی تھا جو دوسروں سے الگ تھلگ اور چہرے مہرے سے جسم جثّے سے معمولی سپاہی نہیں بلکہ اعلیٰ رتبے کا لگتا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی کہا تھا کہ یہ کوئی معمولی سپاہی نہیں ، اس پرنظر رکھنا ، علی بن سفیان اس سے تفتیش اور تحقیقات کرے گا۔

” کتنے زخمی ہو ؟” لڑکی نے اس سے پوچھا ………… ” کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی ؟”

” میں بالکل ٹھیک ہوں ” …………. رابن نے جواب دیا ……….. ” خراش تک نہیں آئی ۔ انہیں بتایا ہے کہ اندر کی چوٹیں ہیں اور سینے کے اندر شدید درد ہے ، لیکن میں بالکل تندرست ہوں ”۔

” پھر یہاں کیوںآ گئے؟ ” …………. لڑکی نے پوچھا ۔

” میں نے بہت کوشش کی کہ مصر میں داخل ہوجائوں اورسوڈانی لشکر تک پہنچ سکوں لیکن ہر طرف اسلامی فوج پھیلی ہوئی ہے ۔ کوئی راستہ نہیں ملا ۔ ان پانچ زخمیوں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ زخمی بن کریہاں آگیا ۔ اب فرار کی کوشش کروں گا جو ابھی ممکن نظر نہیں آتی ”………….. اس نے ذرا غصے سے کہا ……….” مجھے دو سوالوں کا جواب دو ۔ ایوبی کو میں نے زندہ دیکھا ہے ، کیوں ؟ کیا تیر ختم ہوگئے تھے یا وہ حرام خور بزدل ہو گئے ہیں ؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم سات کی سات لڑکیاں مسلمانوں کی قید میں کیوں آگئیں ؟ کیا وہ پانچوں مر گئے ہیں یا بھاگ گئے ہیں ؟”

” وہ زندہ ہیں رابن ! ” …….. موبی نے کہا …….” تم کہتے ہو کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظورہے لیکن میں کہتی ہوں کہ ہمارا خدا ہمیں کسی گناہ کی سزا دے رہا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی اسے لیے زندہ ہے کہ تیر اس کے پائوں کے درمیان ریت میں لگا تھا ” ۔

” کیا تیر کسی لڑکی نے چلایا تھا ؟” ………. رابن نے پوچھا ………… ” کرسٹوفر کہا ں تھا؟”

” اُسی نے تیر چلایا تھا مگر ………”

” کرسٹوفر کا تیر خطا گیا ؟” …………. رابن نے حیرت سے تڑپ کر پوچھا ……….. ” وہ کرسٹوفر جس کی تیر اندازی نے شاہ آگسٹسن کو حیران کر دیا اور اس کی ذاتی تلوار انعام میں لی تھی ، یہاں آکر اس کا نشانہ اتنا چوک گیا کہ چھ فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا صلاح الدین ایوبی اس کے تیر سے بچ گیا؟ بد بخت کے ہاتھ ڈر سے کانپ گئے ہوںگے ”۔

” فاصلہ زیادہ تھا ” ………… موبی نے کہا ………. ” اور کرسٹوفر کہتا تھا کہ تیر کمان سے نکلنے ہی لگا تھا کہ کھلی ہوئی آنکھ میں مچھر پڑ گیا۔ اسی حالت میں تیر نکل گیا ”۔

”پھر کیا ہوا ؟”

” جو ہونا چاہیے تھا ”……. مو بی نے کہا ……….” صلاح الدین ایوبی ساحل پر گیا تھا تو اس کے تین کمانڈر تھے اور چار محافظوںکا دستہ تھا۔ وہ ہر طرف پھیل گئے ۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ علاقہ چٹانی تھا ، کرسٹوفر بچ کے نکل آیا اور پھر ہمیں اتنا وقت مل گیا کہ ترکش اور کمان ریت میں دبا کر اوپر اونٹ بٹھا دیا ۔ سپاہی آگئے تو کرسٹو فر نے انہیں بتایا کہ وہ پانچوں مراکش کے تاجر ہیں اور یہ لڑکیاں سمندر سے نکل کر ہماری پناہ میں آئی ہیں ۔ مسلمان سپاہیوں نے ہمارے سامان کی تلاشی لی ۔ انہیں تجارتی سامان کے سوا کچھ بھی نہ ملا ۔ وہ ہم سب کو سلطان ایوبی کے سامنے لے گئے ۔ ہم نے یہ ظاہر کیا کہ ہم سسلی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتیں ۔ کرسٹوفر نے ایوبی سے کہا کہ وہ ہماری زبان جانتا ہے ۔ ہم ساتوں لڑکیوں نے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف پیدا کر لیا ”۔

موبی نے رابن کو وہ ساری باتیں سنائیں جو سلطان ایوبی کے ساتھ ہوئی تھیں ۔ یہ سات لڑکیاں اور پانچ آدمی جو مراکشی تاجروں کے بھیس میں تھے، حملے سے دو روز پہلے ساحل پر اُتر گئے تھے۔ پانچوں آدمی صلیبیوں کے تجربہ کار جاسوس اور کمانڈو تھے اور لڑکیاں بھی جاسوس تھیں۔ جاسوسی کے علاوہ ان کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ مسلمان سالاروں کو اپنے جال میں پھانسیں ۔ وہ خوبصورت تو تھیں ہی ، انہیں جاسوسی اور ذہنوں کی تخریب کاری کی خاص ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس ٹریننگ میں اداکاری خاص طور پر شامل تھی ۔ پانچ مردوں کا یہ مشن تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ختم کرنا اور ناجی کے ساتھ رابطہ رکھنا ۔ یہ لڑکیا ں مصر کی زبان روانی سے بول سکتی تھیں ، لیکن انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔ رابن اس شعبے کا سربراہ تھا ۔ اسے ناجی تک پہنچنا تھا ، مگر صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان کی چال نے یہاں کے حالات کا رُخ ہی اُلٹا کر دیا ۔

”کیا تم صلاح الدین ایوبی کو جال میں نہیں پھانس سکتیں ؟”………رابن نے پوچھا ۔

” ابھی تو یہاں پہلی رات ہے ” ……….. موبی نے کہا ………….. ” اس نے ہمارے متعلق جو فیصلہ دیا ہے ، اگر وہ سچے دِل سے دیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ مرد نہیں پتھر ہے ، اگر اُسے ہمارے ساتھ کوئی دلچسپی ہوتی تو کسی ایک لڑکی کو اپنے خیمے میں بلا لیتا ………اسے قتل کرنا بھی آسان نہیں ۔ وہ ایک ہی بار ساحل پر آیاتھا ، مگر تیر خطا گیا ۔ وہ سالاروں اور محافظوں کے نرغے میں رہتا ہے ۔ اِدھر ایک سنتری ہمارے سر پر کھڑا ہے اور محافظوں کے پور ے دستے نے صلاح الدین ایوبی کے خیمے کو گھیر رکھا ہے ”۔

(جاری ھے)

(صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہای سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ)

شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

مزید پڑھیں:      داستان ایمان فروشوں کی۔۔۔ تیسری قسط
مزید پڑھیں:      داستان ایمان فروشوں کی۔۔۔ پانچویں قسط