داستان ایمان فروشوں کی ۔۔۔ تیسری قسط

جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اپنے مرکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے نایب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کردیا وہ سارا دن کمرے میں بندے رہے سورج غروب ھوا تاریکی چھا گی کمرے کے اندر کھانا تو دور پانی بھی نہیں گیا ، رات خاصی گزر چکی تھی جب وہ تینوں کمرے سے نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوے علی بن سفیان ان سے الگ ھوا تو محافظ دوستوں کے ایک کمانڈر نے اسے روکا اور کہا۔۔۔

” محترم ۔۔! ہمارا فرض ہے کہ حکم مانیں اور زبانیں بند رکھیں لیکن میرے دستے میں ایک مایوسی پھیل گی ہے خود میں بھی اسکا شکار ہوا ہوں”

” کیسی مایوسی ” علی بن سفیان نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔

کمانڈر نے کہا “محافظ کہتے ہیں کہ فوج کو اگر شراب پینے کی اجازت ہے تو ہمیں اس سے کیوں منع کیا گیا ہے اگر آپ میری شکایت کو گستاحی سمجھیں تو سزا دیں دے لیکن میری شکایت سنیں ہم اپنے امیر کو اللہ کا برگزیدہ انسان سمجھتے تھے اور اس پر دل و جان سے فدا تھے مگر رات،،،،،،”

” مگر رات کو اسکے خیمے میں ایک رقاصہ گئی” علی بن سفیان نے کمانڈر کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا ” تم نے کوئی گستاخی نہیں کی ، گناہ امیر کریں یا غلام سزا میں کوئی فرق نہیں ، گناہ بہرحال گناہ ہے میں یقین دلاتا ہوں آپکو کہ امیر مصر اور رقاصہ کے پچھلی رات کی ملاات میں گناہ کا کوئی عنصر نہیں تھا ،، یہ کیا تھا۔۔؟ ابھی میں تم کو نہیں بتا دونگا آہستہ آہستہ وقت گزرتے ہوئے تم سب کو پتہ چل جائے گا کہ رات کو کیا ہوا تھا ” علی بن سفیان نے کمانڈر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میری بات غور سے سنو عامر بن صالح ۔ تم پرانے عسکری ہو اچھی طرح جانتے ہوکہ فوج اور فوج کے سربراہوں کے کچھ راز ہوتے ہیں جن کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے رقاصہ کا امیر مصر کے خیمے میں جانا بھی ایک راز ہے اپنے جانبازوں کو شک میں نہ پڑنے دو اور کسی سے ذکر تک نہ ہو کہ رات کو کیا ہوا تھا” علی بن سفیان نے کہا

یہ کمانڈر پرانا تھا اور علی بن سفیان کی قابلیت سے آگاہ تھا سو اس نے اپنے دستے کے تمام شکوک رفع کردیئے اگلے روز سلطان صلاح الدین ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی گئی کہ ناجی آیا ہے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کھانے سے فارغ ہوکر ناجی سے ملے ، ناجی کا چہرہ بتارہا تھا کہ غصہ میں ہے اور گھبرایا ہوا ہے اس نے ہکلاتے ہوئے لہجے میں کہا۔

” قابل صدا احترام امیر مصر۔۔۔کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ہے کہ سوڈانی فوج کی پچاس ھزار نفری مصر کی اس فوج میں مدغم کردی جائے جو حال ہی میں تیار ہوئی ہے؟ “

” ہاں ناجی میں نے کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کر کہ اور بڑی گہری سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کہ جس فوج کے تم سالار ہو اسے مصر کی فوج میں اس طرح مدغم کردیا جائے کہ ہر دستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فیصد ہو اور تمھیں یہ حکم بھی مل چکا ہوگا کہ اب تم اس فوج کے سالار نہیں رہوگے تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاؤگے ” سلطان صلاح الدین ایوبی نے تحمل سے جواب دیا،

” عالی مقام مجھے کس جرم کی سزا دی جارہی ہے” ناجی نے کہا

” اگر تمہیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو فوج سے الگ ہو جاؤ” سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا

“معلوم ہوتا ہے میرے خلاف سازش کردی گئی ہے آپ کو بلند دماغ اور گہری نظر سے چھان بین کرنی چاہیے مرکز میں میرے بہت سے دشمن ہیں” ناجی نے کہا

” میرے دوست میں نے یہ فیصلہ صرف اسلیئے کیا کہ کہ میری انتظامیہ اور فوج سے سازشوں کا خطرہ ہمشہ کے لیے نکل جاۓ اور میں نے یہ فیصلہ اسلیئے کیا ہے کہ کسی کا عہدہ کتنا ہی کیوں نہ بلند ہو اور کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو وہ شراب نہ پیئے ہُلڑ بازی نہ کرے اور فوجی جشنوں میں ناچ گانے نہ ہوں” صلاح الدین ایوبی نے کہا۔

” لیکن عالی جاہ۔۔۔ میں نے تو حضور سے اجازت لی تھی” ناجی نے کہا

” میں نے شراب اور ناچ گانے کی اجازت صرف اسلیئے دی تھی کہ اس فوج کی اصل حالت میں دیکھ سکوں جسے تم ملت اسلامیہ کی فوج کہتے ہو ، میں پچاس ہزار نفری کو برطرف نہیں کرسکتا مصری فوج میں اس کو مدغم کر کے اسکے کردار کو سدھار لونگا اور یہ بھی سن لو کہ ہم میں کوئی مصری سوڈانی شامی عجمی نہیں ہے ہم سب مسلمان ہیں ہمارا جھنڈا ایک اور مذہب ایک ہے ” سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا

” امیر عالی مرتبت نے یہ تو سوچا ہوتا کہ میری کیا عزت رہ جائے گی” ناجی نے کہا

“جس کے تم اہل ہو، اپنے ماضی پر ہی نظر ڈالوں ضروری نہیں کہ اپنی کارستانیوں کی داستانیں مجھ سے ہی سنو فورا واپس جاؤ اور اپنی فوج کی نفری سامان جانور سامانِ خوردونوش وغیرہ کے کاغذات تیار کر کے میرے نائیب کے حوالے کرو سات دن کے اندر اندر میرے حکم کی تعمیل ضروری ہونی چاہیے” سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا

ناجی نے کچھ کہنا چاہا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی ملاقات کے کمرے سے باھر نکل گئیے ………….
یہ بات ناجی کے حفیہ خرم میں پہنچ گئی تھی کہ زکوئی کو شاہ مصر نے رات بھر شرف باریابی بخشا ہے زکوئی کے خلاف حسد کی آگ پہلے ہی پھیلی ہوئی تھی، اسے آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا لیکن آتے ہی ناجی نے اسکو اپنے پاس رکھا تھا ، اسے را سی دیر کے لیے بھی اس حرم میں جانے نہیں دیتا جہاں ناجی کی دلچسپ ناچنے والی لڑکیاں رہتی تھیں زکوئی کو اس نے الگ کمرہ دیا تھا، انہیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ناجی زکوئی کو صلاح الدین کو موم کرنے کی ٹرینگ دے رہا ہے اور کسی بڑے تخریبی منصوبے پر کام کر رہا ہے، یہ رقاصائیں بس یہی دیکھ کر جل بھن گئی تھیں کہ زکوئی نے ناجی پر قبضہ کرلیا تھا،اور ناجی کے دل میں ان کے خلاف نفرت پیدا کردی گئی ہے ، حرم کی دو لڑکیاں زکوئی کو ٹھکانے لگانے کی سوچ رہی تھیں اب انہوں نے دیکھا کہ زکوئی کو امیر مصر نے بھی رات بھر اپنے خیمے میں رکھا تو وہ پاگل ہو گیئں اسکو ٹھکانے لگانے کا واحد طریقہ قتل تھا، قتل کے دو ہی طریقے ہو سکتے تھے زہر یا کرائے کے قاتل۔ جو زکوئی کو سوتے ھوئے ہی قتل کردیں،دونوں ہی طریقے ناممکن لگ رہے تھے کیونکہ زکوئی باہر نہیں نکلتی تھی اور اندر جانے تک اسکو رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا،

ان دونوں نے حرم کی سب سے زیادہ ھوشیار چالاک ملازمہ کو اعتماد میں لیا تھا ، اسے انعام و اکرام دیتی رہتی تھیں جب حسد کی انتہا نے انکی آنکھوں میں خون اتار دیا تو انہوں نے اس ملازمہ کو منہ مانگا انعام دے کر اپنا مدعا بیان کیا ، یہ ملازمہ بڑی خرانٹ اور مُنجھی ہوئی عورت تھی، اس نے کہا کہ سالار کی رہائیشگاہ میں جاکر زکوئی کو زہر دینا مشکل نہیں، موقعہ محل دیکھ کر اسکو خنجر سے قتل کیا جاسکتا ہے اس کے لیے وقت چاہیے اس نے وعدہ کیا کہ وہ زکوئی کی نقل حرکت پر نظر رکھے گی ہوسکتا ہے کوئی موقعہ مل جائے ، اس جرائم پیشہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اگر موقعہ نہیں ملا تو حشیشن کی مدد لی جا سکتی ہے مگر وہ معاوضہ بہت زیادہ لیتے تھے دونوں لڑکیوں نے اسکو یقین دلایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے سکتی ہیں
،٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ناجی اپنے کمرے میں بہت غصے کی عالم میں ٹہل رہا تھا زکوئی اسکو ٹھنڈا کرنے کی کوشیش کر رہی تھی لیکن اسکا غصہ مزید بڑھتا چلا جا رہا تھا

” آپ مجھے اسکے پاس جانے دیں میں اسکو شیشے میں اتار لونگی” زکوئی نے کہا

” بیکار ہے ،،،،،، وہ کمبخت حکم نامہ جاری کرچکا ہے، جس پر عمل بھی ہوچکا ہے مجھے اس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا ، اس پر تمہارا جادو نہیں چل سکا مجھے معلوم ہے میرے خلاف سازش کرنے والے لوگ کون ہیں وہ میری ابھرتی ہوئی حثیت سے حسد محسوس کر رہے ہیں میں امیر مصر بننے والا تھا ، یہاں کے حکمرانوں پر میں نے حکومت کی یے حالنکہ میں معمولی سا سالار تھا اب میں سالار بھی نہیں رہا،” ناجی نے دربان کو بلا کر کہا کہ اوورش کو بلائے اسکا ہمراز اور نائب آیا تو اس نے بھی اسی موضوع پر بات کی اسے وہ کوئی نئی خبر نہیں سنا رہا تھا، اوورش کے ساتھ وہ صلاح الدین کے نئے حکم نامے پر تفصیلی تبادلہ خیال کرچکا تھا مگر دونوں اسکے خلاف کوئی تفصیلی کاروائی نہیں سوچ سکے تھے اب ناجی کے دماغ میں جوابی کاروائی آگئی تھی اس نے اوورش کو کہا ” میں نے جوابی کاروائی سوچ لی ہے “

” کیا ” اوورش نے کہا

” بغاوت ” ناجی نے کہا اور اوورش اسکو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ ناجی نے اسکو کہا ” تم حیران ہو گئے ہو کیا تمہیں شک ہے کہ یہ 50 ھزار سوڈانی فوج ہماری وفادار نہیں؟ کیا سلطان کے مقابلے میں مجھے اور تمھیں اپنا سالار اور خیر خواہ نہیں سمجھتی؟ کیا تم اس فوج کو یہ کہہ کر بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتے کہ تمہیں مصر کا غلام بنایا جا رہا ہے مصر تمھارا ہے”

” میں نے اس اقدام پر غور نہیں کیا تھا بغاوت کا انتظام ایک اشارے پر ہو سکتا ہے لیکن مصر کی نئی فوج بغاوت کو دبا سکتی ہے اور اس نئی فوج کو کمک بھی مل سکتی ہے ، حکومت سے ٹکر لینے سے پہلے ہمیں ھر پہلو پر غور کرنا چاہیے” اوورش نے کہا

“میں غور کرچکا ہوں میں عیسائی بادشاہوں کو مدد کے لیے بلا رہا ہوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انہیں بھت دور جانا ہے آئو میری بات بہت غور سے سنو ،، زکوئی تم اپنے کمرے میں چلی جاؤ ” ناجی نے کہا زکوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہ دونوں ساری رات اپنے کمرے میں بیٹھے رہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں فوجوں کو مدغم کرنے کا دورانیہ 7 دن رکھا تھا ، کاغذی کارروائی ہوتی رہی ناجی پوری طرح سے تعاون کرتا رہا 7 روز گزر چکے تھے ناجی ایک بار پھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے ملا لیکن کوئی شکایت نہیں کی ، تفصیلی رپورٹ دے کر کہا کہ سات دن میں دونوں فوجیں ایک ہوجائیں گی ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے نائیبین نے بھی یقین دلایا کہ ناجی ایمانداری سے تعاون کر رہا ھے مگر علی بن سفیان کی رپورٹ کسی حد تک پریشان کن تھی ، اسکی انٹیلی جنس نے رپورٹ دی تھی کہ سوڈانی فوج میں کسی حد تک بے اطمینانی اور ابتری پائی جا رہی ہے وہ مصری فوج میں مدغم ہونے پر خوش نہیں ان میں یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ مصری فوج میں مدغم ھوکر انکی حثیت غلاموں جیسی ھو جائے گی،انکو مال غنیمت بھی نہیں ملے گا اور ان سے باربرداری کا کام لیا جائے گا اور سب سے بڑی بات کہ انکو شراب نوشی کی اجازت نہیں ہوگی علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی تک یہ خبریں پہنچا دیں ،، ایوبی نے اسے کہا کہ یہ لوگ طویل وقت سے عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں انکو یہ تبدیلی پسند نہیں آئے گی ، مجھے امید ہے کہ وہ نئے حالات اور ماحول کے عادی ہوجائینگے

” اس لڑکی سے ملاقات ہوئی کہ نہیں” سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا

” نہیں اس سے ملاقات ممکن نظر نہیں آرہی میرے آدمی ناکام ہوچکے ہیں ناجی نے اسکو قید کر کہ رکھا ہے” علی بن سفیان نے کہا

اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے کہ رات ابھی ابھی تاریک ہوئی تھی زکوئی اپنے کمرے میں تھی ناجی اور اوورش ساتھ والے کمرے میں تھے اسے گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں اس نے پردہ ہٹادیا ، باھر کے چراغوں کی روشنی میں اسکو دو گھوڑ سوار گھوڑوں پر جاتےدکھائی دیئے ۔ لباس سے وہ تاجر معلوم ہورہے تھے گھوڑوں سے اتر کر وہ ناجی کے کمرے کی طرف بڑھے تو انکی چال بتا رہی تھی کہ یہ تاجر نہیں۔ اتنے میں اوورش باھر نکلا دونوں گھوڑ سوار اسکو دیکھ کر رک گیے اور اوورش کو سپاہیوں کے انداز سے سلام کیا ، اوورش نے ان کے گرد گھوم کر انکا جائزہ لیا اور پھر کہا کہ اپنے ہتھیار دکھاؤ دونوں نے پھرتی سے چغے کھولے اور ہتھیار دکھا دیئے انکے پاس چھوٹی چھوٹی تلواریں اور ایک ایک نیزہ تھا اوورش انکو کمرے کے اندر لیے گیا دربان باہر کھڑا تھا۔

زکوئی گہرے سوچ میں پڑ گئی وہ کمرے سے نکلی اور ناجی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی

مگر دربان نے اسکو دروازے پر ہی روکا اور کہا کہ اسے حکم ملا ہے کہ کسی کو اندر جانے نہ دیں زکوئی کو وہاں ایسی حثیت حاصل ہو چکی تھی کہ وہ کمانڈروں پر بھی حکم چلایا کرتی تھی ۔ دربان کے کہنے سے وہ سمجھ گئی کہ کوئی خاص بات ہے اسے یاد آیا کہ ناجی نے اسکی موجودگی میں اوورش سے کہا تھا میں عیسائی بادشاہوں کو مدد کے لیے بلا رہا ہوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انہیں بہت دور جانا ہے آؤ میری بات بہت غور سے سنو اور پھر اس نے زکوئی کو اندر جانے کا کہا اور ناجی پھر بغاوت کی باتیں کرنے لگا۔
یہ سب سوچ کر وہ اپنے کمرے میں واپس چلی گئی اسکے اور ناجی کے خاص کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا جو دوسری طرف سے بند تھا اس نے اسی دروازے کے ساتھ کان لگا دیئے ، ادھر کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں پہلے تو اسے کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن بعد میں اسکو ناجی کی آواز بڑی صاٖف سنائی دے رہی تھی

” آبادیوں سے دور رہنا اگر کوی شک میں پڑے تو سب سے پہلے اس پیغام کو غائب کرنا ، جان پر کھیل جانا جو بھی تمہارے راستے میں حائل ہو اس کو راستے سے ہٹا دینا تمہارا سفر بہت دنوں کا ہے 4، 3 دن میں پہچنے کی کوشش کرنا سمت یاد کرلو ” ” شمال مشرق” ناجی کہ رہا تھا

دونوں آدمی باہر نکلے زکوئی بھی باہر نکلی اس نے دیکھا کہ دونوں سوار گھوڑوں پر سوار ہو رھے تھے ، ناجی اور اوورش بھی باھر نکلے تھے وہ شاید ان کو الوادع کہنے کے لیے باہر کھڑے تھے گھوڑ سوار بھت تیزی سے روانہ ھوئے ناجی نے زکوئی کو بھلا کر کہا کہ میں باہر جا رہا ھوں ، کام بہت لمبا ہے دیر لگے گی تم آرام کر لو اگر اکیلیے دل نہ لگے تو گھوم پھیر لینا “

” ہاں جب سے آئی ہوں باہر ہی نہیں نکلی” زکوئی نے کہا

ناجی اور اوورش بھی چلے گئے زکوئی نے چغہ پہنا کمر میں خنجر اڑسا اور حرم کی طرف چل پڑی وہ جگہ کچھ سو گز دور تھی وہ ناجی پر یہ ظاہر کرانا چاہتی تھی کہ وہ حرم کے اندر ہی جا رہی ھےدربان کو بھی اس نے یہی بتایا۔ حرم کے اندر جب زکوئی داخل ہوئی تو حرم والیاں اسکو دیکھ کر حیران ھوئیں وہ پہلی بار وہاں آئی تھی سب نے اسکا استقبال کیا اور اسکو پیار کیا ، ان دونوں لڑکیوں نے بھی اسکو
خوش آمدید کہا جو زکوئی کو قتل کرنا چاہتی تھیں زکوئی سب سے ملی اور سب کے ساتھ باتیں کیں پھر حرم سے باھر نکلی وہ حرانٹ ملازمہ بھی وھیں تھی جسے نے زکوئی کو قتل کرنا تھا اس نے زکوئی کو بڑے غور سے دیکھا اور زکوئی باہر نکل گئی
حرم والے مکان اور ناجی کے رھائش گاہ کا درمیانی علاقہ اونچا نیچا تھا اور ویران بھی، زکوئی حرم سے نکلی تو ناجی کی رہائشگاہ کے بجائے بہت تیز تیز دوسری سمت کی طرف چل پڑی ، ادھر ایک پگڈنڈی بھی تھی لیکن زکوئی ذرا اس سے دور جا رہی تھی ، زکوئی سے 15۔20 قدم دور ایک ساہ سایہ بھی چلا جا رہا تھا وہ کوئی انسان ہو سکتا تھا لیکن سیاہ لبادے میں لپٹے ہونے کی وجہ سے کوئی بھوت ہی لگ رہا تھا زکوئی کی رفتار تیز ھوئی تو اس بھوت نے بھی اپنی رفتار اور تیز کردی ، آگے گھنی جھاڑیاں تھیں زکوئی ان میں سے روپوش ھوگئی ، سیاہ بھوت بھی جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا ۔ وہاں سے کوئی اڑھائی تین سو گز دور سلطان صلاح الدین کی رہائشگاہ تھی جس کے اردگرد فوج کے اعلی رتبوں کے افراد رہتے تھے

زکوئی کا رخ اُدھر ہی تھا ، وہ جھاڑیوں سے نکلی ہی تھی کہ بائیں طرف سے سیاہ بھوت اٹھا چاندنی بڑی صاف تھی لیکن پھر بھی اسکا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا اسکے پاؤں کی آہٹ بھی نہیں تھی بھوت کا ہاتھ اوپر اٹھا چاندنی میں خنجر چمکا اور بجلی کی سی تیزی سے زکوئی کے بائیں کندھے اور گردن کے درمیان اتر گیا زکوئی کی کوی چیخ نہیں نکلی ، خنجر اسکے کندھے سے نکال دیا گیا ۔ زکوئی نے اتنا گہرا وار کھا کر اپنے کمر بند سے اپنا بھی خنجر نکالا، بھوت نے اس پر دوسرا وار کیا تو زکوئی نے اسکے خنجر والے بازو کو اپنے بازو سے روک کر اپنا حنجر بھوت کے سینے میں اتار دیا ۔ زکوئی کو چیخ سنائی دی جو کسی عورت کی تھی۔ زکوئی نے اپنا خنجر کھینچ کر دوسرا وار کیا جو اسکے پیٹ میں پورا خنجر اتر گیا ۔ اسکے ساتھ ہی زکوئی کے اپنے پہلو میں بھی خنجر لگا لیکن وہ اتنا گہرا نہیں تھا ۔ اسکے ساتھ ہی حملہ کرنے والی عورت چکرا کر گر گئی۔

زکوئی نے یہ نہیں دیکھا کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ۔ وہ ڈور پڑی اسکے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا سلطان صلاح الدین کا مکان اسکو چاندی میں نظر آنے لگا، آدھا فاصلہ طے کر کے زکوئی کو چکر آنے لگے اسکی رفتار سست ھو گئی اس نے چلانا شروع کیا

” علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔” علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔-۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔۔۔”

سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس عظیم جاسوس زکوئی کے کپڑے خون سے سرخ ھونے لگے، وہ بہت مشکل سے اپنے قدم گھسیٹنے لگی تھی ، اس عظیم جاسوس کی منزل تھوڑی بہت ہی قریب تھی لیکن اس تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا ، زکوئ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے ایک قیمتی راز حاصل کیا تھا وہ مسلسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی۔۔۔۔۔۔۔۔¬۔ ایوبی کہہ کر پکار رھی تھی، قریب ہی ایک گشتی سنتری پھیر رھا تھا اسے آواز سنائی دی تو وہ دوڑ کر وہاں پہنچ گیا، زکوئی اس پر گر پڑی اور کہا

” مجھے امیر مصر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔جلدی۔۔۔۔۔بہت¬ جلدی”

سنتری نے جب اسکا خون دیکھا تو اسکو پیٹھ پر لاد کر دوڑ پڑا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے کمرے میں بیٹھا علی بن سفیان سے رپورٹ لے رہا تھا

اسکے دو نائب بھی موجود تھے یہ رپورٹیں کچھ اچھی نہیں تھیں ، علی بن سفیان نے بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا تھا جس پر غور ہورہا تھا ، اتنے میں دربان دوڑتا ہوا آیا کہ ایک سپاھی ایک زحمی لڑکی کو اٹھاۓ باھر کھڑا ہے ، کہتا ھے یہ لڑکی امیر مصر سے ملنا چاہتی ھے۔ یہ سنتے ہی علی بن سفیان کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح باہر دوڑا ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی جب یہ الفاظ سنے تو وہ بھی علی کے پیچھے دوڑا، اتنے میں لڑکی کو اندر لایا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے چیخ کر کہا ” طبیب اور جراح کو جلدی سے بلاؤ” لڑکی کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اٹھا کر اپنے پلنگ پوش پر لٹا دیا تھوڑے ہی وقت میں پلنگ پوش بھی خون سے سرخ ہو گیا۔

” کسی کو نہ بلاؤ میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں ” لڑکی نے نحیف سی آواز میں کہا

” تمھیں زخمی کس نے کیا ہے زکوئی : علی نے کہا پوچھا

” پہلے میری بات سن لو شمال مشرق کی طرف سوار دوڑا دو ، دو سوار جاتے نظر آئینگے دونوں کے چغے بادامی رنگ کے ہیں ، ایک کا گھوڑا بادامی اور دوسرے کا سیاہ ہے وہ تاجر لگتے ھے ان کے پاس سالار ناجی کا تحریری پیغام ہے جو عیسائی بادشاہ فرینک کو بھیجا گیا ھے ۔ ناجی کی یہ سوڈانی فوج بغاوت کرے گی مجھے اور کچھ نہیں معلوم ، سلطان آپکی سلطنت خطرے میں ہے ان دو سواروں کو راستے میں ہی پکڑ لو۔ تفصیل ان کے پاس ہے ” بولتے بولتے زکوئی پر غشی طاری ہو گئی

دو طبیب آگیے انھوں نے خون بند کرنے کی کوشیش کیں زکوئی کے منہ میں دوایئاں ڈالیں جن کے اثر سے زکوئی پھر سے بولنے کے قابل ہوئی ، مثال کے طور پر ناجی نے اوورش کے ساتھ کیا باتیں کی ناجی نے زکوئی کو کیسے اپنے کمرے میں جانے کو کہا ناجی کا غصہ اور بھاگ دوڑ دو سواروں کا آنا جانا وغیرہ، پھر اس نے بتایا کہ اسکو یہ علم نہیں کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ، وہ موقعہ موزوں دیکھ کر ادھر ہی آرہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے خنجر گھونپ دیا اس نے اپنا خنجر نکال کر اس پر حملہ کیا۔ حملہ آور کی چیخ بتا رہی تھی کہ وہ کوئی عورت تھی اس نے جگہ بتا دی تو اسی وقت فوجی وہاں دوڑا دیئے گئے زکوئی نے کہا کہ وہ انسان زندہ نہیں ھوگا کونکہ میں نے وار اسکے سینے اور پیٹ پر کیئے تھے۔

زکوئی کا خون نہیں رک رہا تھا زیادہ تر خون پہلے بہہ گیا تھا سلطان صلاح الدین کا یہ جاسوس اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اپنے فرض پر اپنی زندگی قربان ہو رہی تھی ، زکوئی نے امیر مصر سلطان صلاح الدین کا ہاتھ پکڑ ا اور چھوم کر کہا

” اللہ آپکو اور آپکی سلطنت کو سلامت رکھے آپ شکست نہیں کھا سکتے ، مجھ سے زیادہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ سلطان ایوبی کا ایمان کتنا پختہ ھے ، ” پھر اس نے علی بن سفیان سے کہا ” علی۔۔۔۔! میں نے کوتاہی تو نہیں کی۔۔؟ آپ نے جو فرض دیا تھا وہ میں نے پورا کردیا

” تم نے اس سے زیادہ پورا کیا ہے ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ناجی اتنی خطرناک حد تک کاروائی کر سکتا ہے اور تمھیں جان کی قربانی دینی پڑے گی میں نے تم کو صرف مخبری کے لیے وہاں بھیجا تھا” علی بن سفیان نے کہا

” اے کاش۔۔۔۔۔۔! میں مسلمان ہوتی ۔۔۔۔۔ زکوئی نے کہا اسکے آنسو نکل آئے” میرے اس کام کا جو بھی معاوضہ بنتا ھے وہ میرے اندھے باپ اور صدا بیمار ماں کو دینا جن کی مجبوریوں نے مجھے بارہ سال کی عمر میں رقاصہ بنادیا “

زکوئی کا سر ایک طرف ڈھلک گیا آنکھیں آدھی کھلی ھوئی تھیں اور اسکے ہونٹ آدھے نیم وا مسکرا رہے تھے طبیب نے نبض پر ہاتھ رکھا اور سلطان کی طرف دیکھ کر سر ھلا دیا زکوئی کی روح اسکے زخمی جسم سے آزاد ھوئی تھی، ایک غیر مسلم نے اسلام کی عظمت اور سلطان سے وفاداری کی خاطر جان قربان کردی۔

سلطان صلاح الدین نے کہا” یہ کسی بھی مذھب سے تھی زکوئی کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرو اس نے اسلام ہی کے لیے جان قربان کی ہے اگرچہ یہ ہمیں دھوکہ بھی دے سکتی تھی “

دربان نے اندر آکر کہا کہ باھر ایک عورت کی لاش آگئی ھے جا کر دیکھا گیا تو وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کی لاش تھی جاۓ وقوعہ سے دو خنجر ملے تھے اس عورت کو کوئی نہیں پہچانتا تھا یہ ناجی کے حرم کی ایک ملازمہ تھی جس کو انعام کی لالچ نے زکوئی پر حملہ کرنے پر مجبور کیا رات کو ہی زکوئی کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرحاک کیا گیا اور ملازمہ کی لاش گھڑا کھود کر دفنا دی گی ، دونوں کو نہایت خفیہ انداز سے دفنا دیا گیا ، جب تدفین ہو رہی تھی تو سلطان صلاح الدین نے نہایت اعلی قسم کے آٹھ جوان گھوڑے منگواۓ آٹھ جوان منگوائے گئے ان کو علی بن سفیان کی کمان میں ناجی کے ان دو گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑا دیا گیا جو ناجی کا تحریری پیغام عیسائی بادشاہ کو پہنچا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زکوئی کون تھی۔۔۔۔؟وہ مراکش کی ایک رقاصہ تھی کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اسکا مذہب کیا تھا وہ مسلمان نہیں تھی وہ عیسائی بھی نہیں تھی۔۔

جیسا کہ کہا گیا ہے پہلے ھی کہ علی بن سفیان سلطان کے انٹیلی جنس (جاسوسی اور سراغ رسانی) کا سربراہ تھا اور اسے دوسروں کے راز معلوم کرنے کے کئی ڈھنگ اختیار کرنے پڑتے تھے ،
صلاح الدین اسکو اپنے ساتھ مصر لایا تھا یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہاں کا سالار ناجی نہایت ہی شیطان اور سازشی ہے اسکے اندرونی حالات معلوم کرنے کے لیے علی نے جاسوسوں کا ایک جال بچھا دیا ۔۔ اس اقدام سے علی بن سفیان کو ایک بات یہ معلوم ھوئی کہ ناجی حشیشن کی طرح اپنے مخالفین کو زہر اور حسین لڑکیوں سے پھنساتا اور اپنا گرویدہ بناتا اور مروتا ہے، علی بن سفیان نے تلاش و بسار کے بعد کسی کی وساطت سے زکوئی کو مراکش سے حاصل کیا اور خود بردہ فروش کا روپ دھار کر ناجی کے ہاتھ بیچ دیا

، زکوئی میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسکو سلطان کے پھنسانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن ناجی خود اس لڑکی کے دام میں پھنس گیا اور پھنسا بھی ایسا کہ زکوئی کے سامنے وہ اپنے سالار سے تمام باتیں کیا کرتا تھا ، ناجی نے زکوئی کو جشن کی رات سلطان صلاح الدین کے خیمے میں بھیج دیا اور اپنی اس فتح پر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اس نے صلاح الدین کا بت تھوڑ دیا ہے ، اب وہ اس لڑکی کے ہاتھوں شراب پلا سکے گا اور سلطان کو اپنا گرویدہ بنا لے گا مگر ناجی کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوسکا کہ زکوئی سلطان کی جاسوسہ تھی ، زکوئی سلطان کو اسی رات رپورٹیں دیتی رہی اور سلطان سے ہدایت لیتی رہی زکوئی سلطان کے خیمے سے نکل کر دوسری طرف چلی گئی تھی جہاں زکوئی کو سر منہ کپڑے میں لپیٹا ایک آدمی ملا تھا وہ آدمی علی بن سفیان تھا جس نے زکوئی کو مزید کچھ اور ہدایت دی تھی ۔ اسکے بعد زکوئی ناجی کے گھر سے باھر نہ نکل سکی جس کی وجہ سے وہ علی کو کوئی رپورٹ نہ دے سکی ۔ آخر کار اسکو اسی رات موقع مل گیا اور وہ ایسی رپورٹیں لیکر پہنچی جس کا علم صرف اللہ ہی کو تھا ۔ یہ زکوئی کی بدنصیبی تھی کہ زکوئی کے خلاف حرم میں صرف اس لیئے سازش ہوئی کہ اس نے ناجی پر قبضہ جمایا ہے یہ سازش کامیاب رہی اور زکوئی قتل ھوگئی لیکن مرنے سے پہلے وہ تمام اطلاعیں سلطان تک پہنچانے میں کامیاب رہی۔

زکوئی کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد وہ معاوضہ جو علی بن سفیان نے زکوئی کے ساتھ طے کیا تھا ۔ سلطان کی طرف سے انعام اور وہ رقم جو علی بن سفیان نے ناجی سے بردہ فروش کی صورت میں وصول کی تھی ، مراکش میں زکوئی کے معذور والدین کو ادا کردی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے اس رات کے ستارے ٹوٹ گیے اور جب صبح ھوئی تو علی بن سفیان آٹھ سواروں کے ساتھ انتہائ تیز رفتاری سے شمال مشرق کی طرف جا رجا تھا ، آبادیاں دور پیچھے ہٹتی جا رہی تھیں۔ علی کو معلوم تھا کہ شاہ فرینک کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچنےکا راستہ کونسا ہے ۔ رات انھوں نے گھوڑوں کو آرام دیا ۔ یہ عربی گھوڑے تھے جو تھکے ہوے بھی تازہ دم لگتے تھے ۔ دور کجھور کے چند درحتوں میں علی کو 2 گھوڑے جاتے نظر آئے ، علی نے اپنے دستے کو راستہ بدلنے اور اوٹ میں ہونے کے لیے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ ہو جانے کو کہا ، علی صحرا کا راز دان تھا بھٹکنے کا کوئی خدشہ نہ تھا ، علی نے رفتار اور تیز کردی ، اگلے دو سواروں اور اس دستے کے بیچ کوئی 4 میل کا فاصلہ رہ گیا ۔ یہ فاصلہ تو طے ہوا لیکن گھوڑے تھک گیے تھے ، وہ جب کھجوروں کے درختوں تک پہنچے تو دو سوار کوئی دو میل دور مٹی کے ایک پہاڑی کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے ، ان کے گھوڑے بھی شاید تھک گئے تھے دونوں سوار اترے اور نظروں سے اوجھل ھوگئے

” وہ پہاڑیوں کے اوٹ میں بیٹھ گئے ہیں” علی نے کہا اور راستہ بدل دیا ۔ فاصلہ کم ہوتا گیا اور جب فاصلہ کچھ سو گز رہ گیا تو وہ دونوں بندے اوٹ سے باہر آئے ، انھوں نے گھوڑوں کے سرپٹ دوڑنے کا شور سن لیا تھا ۔ وہ دوڑ کر غایب ہوئے علی بن سفیان نے گھوڑے کو ایڑی لگائی ۔ تھکے ھوۓ گھوڑے نے وفاداری کا ثبوت دیا اور اپنی رفتاری تیز کردی ۔ باقی گھوڑے بھی تیز ھوگءے وہ جب پہاڑی کے اندر گئے تو دونوں سوار نکل چکے تھے مگر زیادہ دور نہیں گئے تھے ۔ وہ شاید گھبرا بھی گئے تھے آگے ریتیلی چٹانیں بھی تھیں ۔ انہیں راستہ نہیں مل رہا تھا کبھی دائیں جاتے کبھی بائیں ۔علی بن سفیان نے اپنے گھوڑے ایک صف میں پھیلا دئے اوراور بھاگنے والوں سے ایک سو گز دور جا پہنچا ۔ ایک تیر انداز نے دوڑتے ہوئے گھوڑے سے تیر چلایا جو ایک گھوڑے کے ٹانگ میں جا لگا ۔ گھوڑا بے لگام ہوا۔ تھوڑی سی اور بھاگ دوڑ کے بعد وہ دونوں گھیرے میں آگئے تھے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے ، سوال جواب پر انہوں نے جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو تاجر ظاھر کرنے لگے ، لیکن جیسے ہی تلاشی لی گئی تو وہ تحریری پیغام مل گیا جو ناجی نے انکو دیا۔ ان دونوں کو حراست میں لیا گیا۔ گھوڑوں کو آرام کا وقت دیا گیا ۔ اور پھر یہ دستہ واپس آگیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی بڑی بے چینی سے انکا انتظار کر رہا تھا، دن گزر گیا رات بھی گزرتی جا رہی تھی۔ آدھی رات گزر گئی ، ایوبی لیٹ گیا ۔ اور اسکی آنکھ لگ گئی۔ سحر کے وقت دروازے پر ہلکی سے دستک پر ایوبی کی آنکھ کھل گئی دوڑ کر دروازہ کھولا تو علی بن سفیان کھڑا تھا اسکے پیچھے آٹھ سوار اور وہ دو قیدی کھڑے تھے ۔ علی اور قیدیوں کو سلطان نے اپنے سونے کے کمرے میں ہی بلالیا علی سلطان کو ناجی کا پیغام سنانے لگا ۔ پہلے تو سلطان کے چہرے کا رنگ ہی پیلا پڑ گیا پھر جیسے خون جوش مار کر سلطان کے چہرے اور آنکھوں میں چڑھ آیا ہو ناجی کا پیغام خاصا طویل تھا ناجی نے صلیبیوں کے بادشاہ فرینک کو لکھا تھا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت یونیانیوں رومیوں اور دیگر صلیبیوں کی بحریہ سے بحیرہ روم کی طرف سے مصر میں فوجیں اتار کر حملہ کردیں، حملے کی اطلاع ملتے ہی 50 ہزار سوڈانی فوج بھی امیر مصر کے خلاف بغاوت کردے گی ، مصر کی نئی فوج ایک ہی وقت میں بغاوت اور حملے کے جواب کی قابل نہیں ، اس کے غوض ناجی نے تمام تر مصر یا مصر کے ایک بڑے حصے کی بادشاہت کی شرط رکھی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں پیغام لیکر جانے والوں کو قید خانے میں ڈال دیا ، اور اسی وقت نئی مصری فوج سے ایک دستہ بھیج کر ناجی اور ناجی کے نائیبین کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کردیا ۔ ناجی کےحرم کی تمام کی تمام لڑکیاں آزاد کردی گئیں ، ناجی کے تمام خزانے کو سرکاری خزانے میں ڈال کر سرکاری خزانہ بنادیا گیا اور یہ تمام کاروائی خفیہ رکھی گئی، سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی کی مدد سے اس خط میں جو پکڑا گیا تھا حملے کی تاریح مٹا کر اگلی تاریح لکھ دی۔ دو ذہین فوجیوں کو شاہ فرینک کی طرف روانہ کیا گیا، ان دونوں فوجیوں کو یہ ظاھر کرنا تھا کہ وہ ناجی کے پیامبر ہیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو روانہ کر کے سوڈانی فوج کو مصری فوج میں مدغم کرنے کا حکم روک دیا ،

آٹھویں روز وہ دونوں پیامبر واپس آگیے اور شاہ فرنک کا جوابی خط جو اس نے ناجی کے نام لکھا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیا ، شاہ فرنک نے لکھا تھا کہ حملے کی تاریح سے دو دن قبل سوڈانی فوج بغاوت کردیں ، تاکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کا حملہ روکنے کی ہوش تک نہ رہے ، علی بن سفیان نے ان دو پیامبروں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت سے نظر بند کردیا ، یہ نظربندی باعزت تھی، جس میں دونوں کے آرام اور بہترین کھانوں کا خاص خیال رکھا گیا ، یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی کہ یہ اھم راز فاش نہ ہو، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فوج کو چھپا لیا جہاں صیلبیوں نے لنگرانداز ہوکر اپنی فوجیں اتارنی تھی ، حملے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔۔

ایک مورخ سراج الدین نے لکھا ھے کہ سوڈانی فوج نے شاہ فرینک کے حملے سے پہلے ہی بغاوت کردی تھی ، جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے طاقت سے نہیں بلکہ پیار ڈپلومیسی اور اچھے حسن سلوک سے دب لی تھی ، بغاوت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باغیوں کو اپنا سالار ناجی کہی بھی نظر نہیں آیا اور اسکا کوی نائب بھی سامنے نہیں آیا،،،،، وہ سب تو قید میں تھے ،،

مگر ایک اور مورخ ہیتاچی لکھتا ہے ” سوڈانی فوج نے حملے کے بعد بغاوت کی تھی ” تاہم یہ دونوں مورخ باقی تمام واقعات پر متفق نظر آتے ہیں دونوں نے لکھا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی اور اسکے نائیبین کو سزا میں موت کی سزا دے کر رات میں ہی گمنام قبروں میں دفن کرادیا “

ان دونوں مورخوں اور ایک اور مورح ” لین پول” نے بھی صلیبیوں کے بحریہ کے اعداد و شمار ایک جیسے ہی لکھے ھے وہ لکھتے ہیں کہ خط میں دی ھوئی تاریح کے عین مطابق صلیبیوں کی بحریہ جس میں فرینک کی یونان کی روم کی اور سسلی کی بحریہ شامل تھی ، متحدہ کمان میں بحریہ روم میں نمودار ھوئی ، مورخین کے مطابق اس بحریہ میں جنگی جہازوں کی تعداد 150 تھی ، اسکے علاوہ کچھ جنگی جہاز بہت بڑے تھے ان میں مصر میں اتارنے کے لیے فوجیں تھی اس فوج کا صلیبی کمانڈر ایمئرک تھا جن بادبانی کشتیوں میں رسد تھی اسکی ٹھیک تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ، جہاز دو قطاروں میں آرہے تھے۔۔۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی کمانڈ اپنے پاس رکھی ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے بحریہ کو مزید قریب آنے دیا دام بچھایا جا چکا تھا۔ سب سے پہلے بڑے جہاز لنگر انداز ہوئے ہی تھے کہ ان پر اچانک آگ برسنے لگی ، یہ منجنیقوں سے پھیکے ہوئے شعلے تھے اور آگ کے گولے اور ایسے تیر بھی جن کے پچھلے حصے جلتے ھوئے شعلے کے مانند تھے ، مسلمانوں کے اس برساتی ھوئی آگ نے صلیبیوں کے جہازوں کے بادبانوں کو آگ لگا دی ، جہاز لکڑی کے تھے جو فورا جل اٹھے ، ادھر سے مسلمانوں کے چھپے ھوئے جہاز آگئے انھوں نے بھی آگ ھی برسائی ، یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بحیرہ روم جل رہا ہو، صلیبیوں کے جہاز موڑ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور ایک دوسرے کو خود ہی آگ لگانے لگے جہازوں سے صلیبی فوج سمندر میں کود رہی تھی ان میں سے جو سپاہی زندہ ساحل پر آرہے تھے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے فوجیوں کے تیروں کا نشانہ بن رہے تھے

ادھر شیر اسلام نورالدین زنگی نے فرینک کے سلطنت پر حملہ کردیا فرینک نے اپنی فوج مصر خشکی کے زریعے روانہ کردی تھی ، فرینک اس وقت سمندر میں جنگی بیڑے کے ساتھ تھا جب اسکو اپنی سطنت پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچھا کر بھاگ گیا لیکن جب وہ وہاں پہنچا،،،تو،،،،،،،،،،¬وہاں کی دنیا بدل گئی تھی،،،

بحیرہ روم میں صلیبیوں کا متحدہ بیڑہ تباہ ھوچکا تھا اور فوج جل اور ڈوب کر ختم ہورہی تھی ، صلیبیوں کا ایک کمانڈر ایملرک بچ گیا اس نے ہتھیار ڈال کر صلح کی درحواست کی جو بہت بڑی رقم کے عوض منظور کی گئی ، یونانیوں اور سسلی کے کچھ جہاز بچ گئے تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو جہاز واپس جانے کی اجازت دی مگر راستے میں ہی ایسا طوفان آیا کہ تمام بچے کچھے جہاز وہیں غرق ہوگئے

١٩دسمبر ١١٦٩ کے روز صلیبیوں نے اپنی شکست پر دستحط کئے اور ، سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاوان ادا کردیا بیشتر مورخین اور ماہرین حرب و ضرب نے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس فتح کا سہرہ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے انٹیلی جنس کے سر باندھا ہے ، رقاصہ زکوئی کا ذکر اس دور کے ایک مراکشی وقائع نگار اسد السدی نے کیا ہے ، اور علی بن سفیان کا تعارف بھی اسی وقائع نگار کی تحریر سے ہوا ہے ، یہ ایک ابتدا ھے۔ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی اب پہلے سے بھی زیادہ خطروں میں گر رہی ھے۔۔۔۔

یہ واقعہ ختم ہوا جبکہ سلسلہ جاری ھے.

اگلا واقعہ ساتویں لڑکی

(صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی مہمات پر لکھا گیا انتہای سحر انگیز ناول ہے، سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت کے بانی تھے سلطان 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ،شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ)

شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

مزید پڑھیں:      داستان ایمان فروشوں کی۔۔۔ دوسری قسط
مزید پڑھیں:      داستان ایمان فروشوں کی۔۔۔ چھوتھی قسط