خوابِ کثیف

شبنمی رات ہے
ایک سیمیں بدن ساتھ ہے
لان میں گھاس پر بیٹھ کر
اُس کے ہونٹوں کی خوشبو سے محظوظ ہوتے ہوئے
آگ سی میرے ہونٹوں میں اک دم سلگنے لگی
میں نے وارفتگی میں
وہ خوشبو فشاں ہونٹ اپنے لیے
جامِ شبنم سمجھ کر چھوئے
اور پھر ایک دم
ساری خوشبو ہواؤں میں تحلیل ہوتی گئی
میری ساری ہَوس بھی ندامت میں تبدیل ہوتی گئی
نیند کی دیوی مجھ سے خفا ہو گئی
میری آنکھیں کے در وا ہوئے
اور پلکوں کی چلمن پہ شبنم کے موتی بکھرتے گئے
لیکن ان شبنمی موتیوں میں لطافت نہ تھی
یہ ہَوس کی کثافت تھی جو دُھل گئی
اور پھر دل ٹھہر سا گیا

فائق تُرابی

موضوعات