خامشی ہم کلام رہتی ہے

خامشی ہم کلام رہتی ہے
گفتگو، نا تمام رہتی ہے

ایسے اعصاب پر سوار نا ہو
تشنگی، تشنہ کام رہتی ہے

چوٹیوں کی صبح، سے ہے خائف
وادیوں میں جو شام رہتی ہے

پہلے دستے پہ ہاتھ تھا سب کا
سیف اب بے نیام رہتی ہے

بس نظر پر نہیں کوئی قد غن
بس زباں، بے لگام رہتی ہے

اب ہر اک طاق پہ غلافوں میں
وہ بہ صد احترام رہتی ہے

بیچ کر، حال کو جو مستقبل
کتنی صدیاں غلام رہتی ہے

احمد چیمہ

موضوعات

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.