جب تک نگار داشت کا سینہ دکھا نہ تھا

جب تک نگار دشت کا سینہ دکھا نہ تھا
صحرا میں کوئی لالۂ صحرا کھلا نہ تھا

دو جھیلیں اس کی آنکھوں میں لہرا کے سو گئیں
اس وقت میری عمر کا دریا چڑھا نہ تھا

جاگی نہ تھیں نسوں میں تمنا کی ناگنیں
اس گندمی شراب کو جب تک چکھا نہ تھا

ڈھونڈا کرو جہان تحیر میں عمر بھر
وہ چلتی پھرتی چھاؤں ہے میں نے کہا نہ تھا

اک بے وفا کے سامنے آنسو بہاتے ہم
اتنا ہماری آنکھ کا پانی مرا نہ تھا

وہ کالے ہونٹ جام سمجھ کر چڑھا گئے
وہ آب جس سے میں نے وضو تک کیا نہ تھا

سب لوگ اپنے اپنے خداؤں کو لائے تھے
ایک ہم ایسے تھے کہ ہمارا خدا نہ تھا

وہ کالی آنکھیں شہر میں مشہور تھیں بہت
تب ان پہ موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھا نہ تھا

میں صاحب غزل تھا حسینوں کی بزم میں
سر پر گھنیرے بال تھے ماتھا کھلا نہ تھا

بشیر بدر

موضوعات