تُجھے زندگی کا شعور تھا، ترا کیا بنا؟

تُجھے زندگی کا شعور تھا، ترا کیا بنا؟
تُو خموش کیوں ہے مجھے بتا، ترا کیا بنا؟

نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
مَیں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا، ترا کیا بنا؟

مُجھے عِلم تھا کہ شِکست میرا نصیب ہے
تُو امیدوار تھا جیت کا، ترا کیا بنا؟

مَیں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لئے
کوئی آکے مجھ سے یہ پوچھتا تیرا کیا بنا؟

جو نصیب سے مِری جنگ تھی وہ تری بھی تھی
میں تو کامیاب نہ ہو سکا، تِرا کیا بنا؟

تجھے دیکھ کر تو مجھے لگا تھا کہ خوش ہے تُو
تِرے بولنے سے پتہ چلا، تِرا کیا بنا!!!!!!!!!

میں الگ تھا اوروں سے اس لیے یہ سزا ملی
تُو بھی دوسروں سے تھا کچھ جُدا، تِرا کیا بنا

تیمور حسن تیمور