التماس

مری آنکھ میں رتجگوں کی تھکاوٹ

مری منتظر راہ پیما نگاہیں

مرے شہرِ دل کی طرف جانے والی

گھٹاؤں کے سایوں سے آباد راہیں

مری صبح تیرہ کی پلکوں پہ آنسو

مری شامِ ویراں کے ہونٹوں پہ آہیں

مری آرزوؤں کی معبود! تجھ سے

فقط اتنا چاہیں، فقط اتنا چاہیں

کہ لٹکا کے اک بار گردن میں میری

چنبیلی کی شاخوں سی لچکیلی بانہیں

ذرا زلفِ خوش تاب سے کھیلنے دے

جوانی کے اک خواب سے کھیلنے دے

مجید امجد

موضوعات