ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں

اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں

ادھوری سی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں

بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

اگر وحشت کا یہ عالم رہا تو عین ممکن ہے
سکوں سے جیتے جیتے بھی پریشانی سے مر جائیں

کہیں ایسا نہ ہو یا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں

افضل خان

تبصرے کیجئے

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.